نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حد سے زیادہ خود اعتمادی ڈبو سکتی ہے! ۔۔۔طاہر محمود اعوان

مولانا کو روکنے کے لیے خادم رضوی طرز کے قبل از وقت کریک ڈاون کی ضرورت تھی جس کے لیے اب بہت دیر ہوچکی ہے ۔۔

مولانا کا "اکتوبر مارچ ” پوری آب و تاب کے ساتھ پنجاب میں داخل ہوگیا ہے اور کل شام تک اسلام آباد پہنچنے کا بھی امکان ہے جس میں خیبر پختونخوا شمالی پنجاب کی کمک بھی شامل ہو جائے گی ۔

مولانا اسلام آباد میں داخلے کے بعد جلسہ کرتے ہیں یا دھرنا اس کے متعلق ابھی صرف وہی جانتے ہیں یا ان کے قریبی رفقاء ۔ تاہم حکومت کی جانب سے فیصلہ سازی میں تاخیر اور گومگوں کی کیفیت نے انہیں کافی طاقت اور حوصلہ دیا ہے ۔حکومت کی جانب سے کسی واضح گائڈ لائن کے نا ہونے کی وجہ سے پولیس ،قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کو بھی کنفیوز کر رکھا ہے اور مارچ کو روکنے کے حوالے سے جو انتظامی اقدامات اٹھائے جانے تھے ان میں اب کافی تاخیر ہوچکی ہے ۔۔

مولانا کو روکنے کے لیے خادم رضوی طرز کے قبل از وقت کریک ڈاون کی ضرورت تھی جس کے لیے اب بہت دیر ہوچکی ہے ۔۔

مولانا حکومت کو مذاکرات کے نام پر الجھا تے رہے اور ساتھ ہی ساتھ مارچ کو بھی آگے بڑھاتے رہے ۔سندھ تک کے معاملات وفاقی اور پنجاب حکومت کے بس میں نا تھے لیکن آزادی کیساتھ پنجاب داخلے کی اجازت بہت بڑی سیاسی اور انتظامی حماقت ہے۔

مولانا نے کمال ہوشیاری سے حکومت کو معاہدے کے چنگل میں پھنسا لیا اور اسی آڑ میں لائو لشکر اسلام آباد میں داخل کرنے میں کامیاب ہوتے دکھائی دیتے ہیں

حیرت ہے کہ پانچ سال احتجاج کی سیاست کرنے والی جماعت یہ بھول گئی کہ حکومت کیساتھ کیے گیے ایسے معاہدے وقت انے پر محض کاغذ کے ٹکڑے ثابت ہوتے ہیں ۔

نواز حکومت نے 2014 کا احتجاج روکنے کی حکمت عملی بہت پہلے سے تیار کر لی تھی ، حتی کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن تک سے بھی گریز نہیں کیا ۔
احتجاج سے قبل طاہر القادری کے ہزاروں کارکنوں کو سات اگست سے ہی ماڈل ٹاؤن میں محصور کردیا گیا تھا ۔ پورے ملک میں کریک ڈائون کیا گیا اور عوامی تحریک کے کئی ہزار سرگرم کارکن اٹھا لیے گیے ۔

احتجاج نزدیک آنے پر حکومت نے ملک بھر کے پٹرول پمپس بند کرا دئیے ۔ فوڈ کیٹرنگ والوں کو پابند کیا گیا کہ تعاون نا کریں ۔۔
موجودہ حکومت نے اس کے برعکس مولانا کو بہت ایزی لیا اور محض "اچھا بچہ” بننے کی کوشش میں اپوزیشن کیساتھ غیر ضروری تعاون کرتی رہی جس کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے ۔

حیرت یہ بھی ہے کہ حکومتی ترجمان ٹی وی شوز میں مکمل طور پر بیک فٹ پر دکھائی دیتے ہیں کوئی بھی شخص اپوزیشن کو انکا ماضی یاد نہیں کروا رہا اور نا ہی یہ بتا رہا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اس حکومت نے احتجاجیوں کو کتنی کھلی چھوٹ دی ہے ۔ نا کریک ڈائون کیا گیا ہے نا ہی سڑکیں اور پمس بند کیے گیے ہیں ۔مارچ والوں کو راستے میں پانی کھانا تیل پٹرول حتی کے لگژری کنٹینرز کی ہر ضرورت وافر مقدار میں دستیاب ہے ۔

اس کے برعکس نواز حکومت نے عمران خان اور طاہر القادری کے احتجاج کو روکنے کے لیے سخت ترین اقدامات کیے تھے ۔ جگہ جگہ قافلوں کو روکا گیا ،جی ٹی روڈ اور موٹر وے کو مکمل طور پر بند کیا گیا ۔ بھیرا انٹرچینج سے لیکر لاہور اور پھر اسلام آباد پہنچنے تک شیلنگ اور فائرنگ کا بے دریغ استعمال ہوا یہاں تک کے تاریخ انسانی کا بدترین سانحہ ماڈل ٹاون بھی رونما ہوا ۔ مگر یہ سب چیزیں حکومتی ترجمانوں کی زبان پر آنے سے نامعلوم وجوہات کی بنا پر قاصر ہیں ۔

ایسا لگتا ہے حکومت نے مارچ کو روکنے نا روکنے کا کلی فیصلہ عدالتوں پر چھوڑ رکھا تھا جس نے گیند دوبارہ حکومت کی ہی کورٹ میں پھینک کر اپنا دامن بچا لیا ۔
۔

اگر چہ منتخب حکومتوں کو کسی احتجاج دھرنے کے نتیجے میں نہیں گرایا جاسکتا تاہم اس قسم کے احتجاج سے حکومتیں کمزور ضرور ہوجاتی ہیں اور آئندہ سیاسی نقصان اسکے علاؤہ ہوتا ہے ۔ ماضی میں اسی قسم کے احتجاج کی بدولت عمران خان نے طاقت حاصل کی ،اگر چہ وہ پوری کوشش کےباوجود نواز حکومت نا گرا سکے لیکن یہ عوامی دبائو ہی تھا کہ جس کی بدولت نواز شریف اپنی ہی حکومت میں جیل چلے گئے اور اگلا انتخاب عمران خان نے جیت لیا ۔

اب جس طرح مولانا کو کھلا میدان دیا گیا ہے اور جس طرح انھوں نے پورے ملک میں اپنے ہم خیال عوام کو متحرک کیا ہے اسکا سیاسی خمیازہ بہرحال تحریک انصاف کو بھگتنا پڑے گا ۔

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ اس مارچ میں مولانا کے حمایتی کم اور عمران خان کے مخالف ذیادہ شریک ہیں لیکن یہ بھی سیاسی غیر دانش مندی ہے کہ اپنے تمام سیاسی مخالفین کو ایک جگہ جمع ہونے اور عوام کو متحرک کرنے کا ایسا کھلا موقع فراہم کیا جائے ۔اس کے بہرحال سیاسی نقصان ہیں جو نوشتہ دیوار پر لکھے جا چکے ہیں ۔

غالباً حکومت کو یہ تسلی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اسکے ساتھ ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ عوامی غیض و غضب آمروں کو بھی بہا لے جاتا رہا ہے اور ایک وقت ایسا آجاتا ہے جب خون خرابہ روکنے کے لیے کوئئ بھی فیصلہ کر لیا جاتا ہے.

مشاہدہ کہتا ہے کہ بڑے خواب اور بڑی سوچ ضرور رکھنی چاہیے لیکن حد سے زیادہ خود اعتمادی بھی انسان کو ڈبو دیتی ہے۔۔

About The Author