گزشتہ روز خیبر پختونخوا کے میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے ایٹا کے نتائج کا اعلان کیا گیا۔ اس اعلان میں81 صفحوں والی لسٹ میں 3684 طلبا و طالبات کو پاس دکھایا گیا ہے ۔
دوسری 68 صفحوں کی ایک لسٹ سیلف فنانس والوں کی ہے جس میں پانچ ھزار سے زیادہ طلبا کے نام درج ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے تمام میڈیکل کالجوں ۔یونیورسٹیوں اور مختلف اداروں میں یہ ٹسٹ اس لیے شروع کیے گیے کہ حکومت کو خود اپنے قائیم کیےگیے تعلیمی بورڈز کے نتائج پر اعتبار نہیں ورنہ پہلے جو میرٹ لسٹیں بنتی تھیں وہ تعلیمی بورڈز سے حاصل شدہ نمبروں کی بنیاد پر داخلے ملتے تھے۔
ایٹا ٹسٹ میں ایک قباحت یہ بھی ہے کہ اپنے تعلیمی اداروں سے بارہ سال کی کارکردگی اور حاصل کردہ نمبروں کا ویٹیج بہت کم ہے جب کہ ایٹا سے حاصل شدہ نمبروں کا ویٹیج پچاس فیصد رکھا گیا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر آپ صرف ایک ایٹا ٹسٹ میں دو سو میں سے 180 تک نمبر بھی لے لیں تو آپ کے انٹرمیڈیٹ کیریر کے 60% نمبر بھی آپ کو میڈیکل کالج میں داخلہ دلوا دیتے ہیں دوسری طرف آپ نے FSC میں 90% سے بھی زیادہ نمبر حاصل کر رکھے ہوں اور ایٹا میں ساٹھ ستر فیصد نمبر آ جائیں تو آپ داخلے سے محروم ہو جاتے ہیں۔
اس سارے معاملے میں ایک سوال کھڑا ہوتا ہے کہ جو حکومت اپنے قائیم کیے گیے تعلیمی بورڈز پر اعتبار نہیں کرتی وہی حکومت ایک ایٹا ٹسٹ پر کیوں اعتماد کرتی ہے؟
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ایک طالبعلم کی بارہ سال کی کارکردگی کو ایٹا ٹسٹ کی تین ماہ کی تیاری پر کیوں قربان کر دیا جاتا ہے؟ جس ملک میں کرپشن بدعنوانی اور ناانصافی نے جڑیں کھوکھلی کر رکھی ہیں اس ملک میں کیا ایٹا ٹسٹ فرشتے لیتے ہیں کہ اس میں شفافیت آ جاتی ہے؟
ایٹا ٹسٹ کو شفاف بنانے کے لیے بیشک کمپوٹر مارکنگ کی جاتی ہے اور ایک کاپی طالب علم کو بھی ملتی ہے جس سے وہ اپنی کارکردگی خود دیکھ سکتا ہے لیکن اگر ایٹا ٹسٹ کا پیپر لیک کر کے چند طلبا کو پہلے سے دے دیا جائے تو لا محالہ اس کی کارکردگی سو فیصد ہو جائے گی جبکہ اس کی بارہ سال کی کارکردگی سے وہ میچ نہیں کرتی اور پیپر لیک ہونے کے واقعات تو روزانہ ہوتے رہتے ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں ایک جابرانہ طرز حکمرانی قائیم ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایٹا ٹسٹ لینے والے ہمارے حکمرانوں کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوں اور موت کو دعوت دیں۔ حال ہی میں ایک ایجوکیشن افسر کے قتل کے کیس کے ڈانڈے بھی جابر لوگوں کے آگے سر تسلیم خم نہ کرنے سے ملتے ہیں اور رپورٹ کیے جا رہے ہیں۔
ایک بات جس سے ہماری حکومت آنکھیں بند کر کے بیٹھی ہے وہ ہے تعلیمی سہولتوں کا فقدان۔ اگر آپ ڈیرہ ۔بنوں ۔چترال۔دیر ۔شانگلہ کے دور دراز کے سکولوں میں جائیں تو وہاں پڑھانے کے لیے سائنیس ٹیچر تک دستیاب نہیں۔
اب اس صورت حال میں ان پسماندہ علاقوں میں پڑھنے والی بچے بچیاں کبھی بھی پشاور ۔ایبٹ آباد۔ ڈیرہ ۔کوہاٹ کے اعلی پبلک سکولوں میں پڑھنے والے طلبا سے کسی تعلیمی ٹسٹ میں اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکتے۔ معاشرے میں یہ تفاوت 1970ء کے بعد پیدا ہونا شروع ہوا جب ہمارے سرکاری تعلیمی ادارے پبلک سکولوں کے مقابلے میں پیچھے چلے گیے۔امراء کے لیے سپانسرشپ سکیمیں آ گئیں اور نالائق لوگ دولت کے بل بوتے پر ڈاکٹر۔انجینیر اور سفارشوں پر بڑے افسر بننے لگے۔
اس طرح پاکستانی معاشرہ تنزلی کا شکار ہونے لگا۔اب اس کا حل کیا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ میڈیکل اور انجنیرنگ یا دوسری تمام سیٹوں کا ہر ضلع کا علیحدہ کوٹہ مقرر کر دیا جاۓ اور اسی ضلع کے طلبا اپنے حاصل کردہ نمبروں اور ایٹا ٹسٹ کی بنیاد پر آپس میں مقابلہ کر کے منتخب ہوں ۔
اس طرح کم از کم ایک ضلع کے کوٹہ کے مطابق ڈاکٹر اور انجینیر بنیں گے تو اپنے علاقوں میں نوکری کرنے آئیں گے۔موجودہ صورت حال میں ہمارے سارے میڈیکل اور انجنیرنگ کالجوں میں دو تین بڑے شہروں کے طلبا ہی ڈاکٹر انجینیر بنتے رہینگے اور دوسرے ضلعے مزید پسماندہ ہونگے کیونکہ اتنے دور دراز نوکری کرنے ترقی یافتہ اضلاع کے لوگ نہیں آتے اور معاشرے میں احساس محرومی پیدا ہوتا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر