سُنتے آئے ہیں کہ الزام تراشی بڑا آسان کام ہے۔ میرے خیال میں یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ یہ بہت ہی جوکھم بھرا کام ہے۔ الزام کو ثابت کرنے کا بوجھ اُٹھانا اُس سے بھی بوجھل ۔ پھر اُس پے طُرہ یہ کہ ٹھوس ثبوت پیش کرنا الامان الحفیظ !!
خاص کر طاقتور ریاست کی دلال عدالتوں میں تو یہ کام سالوں چلتا رہتا ہے۔
اکثر الزام لگنے یا لگانے کے بعد انسان کی زندگی میں بہت ساری پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں جن کا بلا واسطہ تعلق ہمارے سماجی تعلقات کے دائروں سے جُڑا ہوا ہوتا ہے۔ ہماری بہت ساری نظریاتی بندشیں ہو سکتی ہیں جو الزام لگانے کے جذباتی رُجحان کو پروان چڑھاتی ہیں جس میں ذاتی پسند نا پسند کا عنصر بھی ایک اہم پہلو کے طور پر نُمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ ہمارے شعور اور لا شعور کی پرتوں میں مُختلف خصوصیات کے حامل رنگوں کے عکس ہوتے ہیں جن کا پرتو ہماری رویہ جاتی سوچ کے ذریعے عیاں ہوتا رہتا ہے۔ کبھی غُصہ، کبھی نفرت، کبھی پیار ، کبھی تعصب تو کبھی انا کی صورت !!
ہر انسان کی کُچھ کمزوریاں اور کُچھ مُثبت پہلو ہوتے ہیں۔ ہر انسان کا اپنا اپنا خاص پس منظر ہوتا ہے جن کو جانے بغیر ہم الزام لگانے یا لگنے والے کی اصلی حالت کو سمجھ نہیں سکتے اور نہ ہی دوڑ دھوپ بھری زندگی میں کوئی کسی کو گہرائی سے سمجھنا چاہتا ہے۔
الزامات کی پیچیدہ کہانی میں شکوک اور سوالیہ نشانوں کی کئے مرحلے ہوتے ہیں جن کو سر کرنا اکثر اوقات بہت مُشکل ہو تا ہے خاص کر اُس کو اگر ادارہ جاتی یا ریاستی تناظر میں دیکھا جائے۔ اداری جاتی یا ریاستی انصاف کے پہلو کو مد نظر رکھ کر لوگوں کی اکثریت چُپ رہ کر اندر ہی اندر گیلی لکڑی کی طرح آہستہ آہستہ راکھ بنتی رہتی ہے جس کی وجہ سے سماجی نا انصافی اور غیر متوازن طاقت کے عناصر زیادہ شدت سے پھلتے پھولتے ہیں۔
یہ کیفیت دراصل لامتناہی خوف کو جنم دیتی ہے۔خوف منفی جذبہ ہے جس کے زیر اثر ہمیشہ منفی اور آمرانہ سوچ کے حامل اتحاد سماجی، ادارہ جاتی اور ریاستی سطح پر بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں مگر یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔ اب تک کے جتنے بھی سماجی اور نفسیاتی علوم ہیں وہ اس مسئلے کو پوری طرح سے سمجھ نہیں سکے جس کی وجہ سے جدید دُنیا اور تہذیبیں بھی خوف کے سائے سے اپنا دامن نہیں بچا سکیں۔
اگر آپ قلمبند اصولوں اور ضابطوں کی دُنیا کا جائزہ لیں تو بیشتر کیسسز میں پروسیجر اور پالیسیز نے ہمیشہ سادہ دل اور سچے لوگوں کو بے اختیار اور کمزور کیا ہے کیونکہ ضابطے اور پالیسیاں صرف ٹھوس اور مادی ثبوتوں کی بیساکھیوں کے آسرے ٹکی رہتی ہیں۔اُن کے نزدیک غیر مادی ثبوتوں کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی ۔اکثر ہمارے دل کو پتا ہوتا ہے کہ کون سچا ہے کون جھوٹا ہے ، انسان کے تاثرات، اُس کی سوچ اور اُس کی ترجیحات سے آسانی سے پتا لگایا جا سکتا ہے کہ کون کس ظرف اور کس ضمیر کا انسان ہے۔
جیسے ساہیوال سانحہ ، نقیب اللہ کا قتل کا واقعہ ، اے ٹی ایم سے پیسے چوری کرنے والے شخص کا ڈائیلاگ ” کہ مارو گے تو نہیں” اور قصور میں بچوں کے قتل کا قصہ اس پروسیجرل گیم کا وہ چہرہ ہیں جس کو اس تناظر میں دیکھنے کے بعد الزام کی ہئئت اور اس کے نتائج کا تجزیہ اس امر کا غماض ہے کہ الزام صرف ایک واقعاتی سچ نہی ہوتا بلکہ یہ ایک ایسا قضیہ بن جاتا ہے جس میں کسی بھی معاشرے کی ساخت اور اس کی جڑت میں چھپے سماجی ، اخلاقی اور سیاسی پہلو بھی اجاگر ہوتے ہیں۔ہمارے معاشرے نے ابھی تک انسان نے ظرف، ضمیر اور آنکھوں میں چُھپی سچائی کو اہمیت اور عزت دینا نہیں سیکھا جس کی وجہ سے ہمیشہ وہی لوگ اس دُنیا پر حُکمرانی کرتے آئے ہیں جو ان سچے اور کھرے جذبات کی سودے بازی میں مشاق ہوتے ہیں۔
یہ لمحہ فکریہ ہے کہ انسان نے اجتماعی اور وسیع خوشی کو سماجی جُڑت سے جوڑنے کی بجائے انفرادی یا گروہی خوشی کو اہمیت دی جو عموماً مُختصر وقت کیلئے کارگر ہوتی ہے مگر پائیدار ہرگز نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی مُجھے عجیب سا ڈر لگتا ہے کہ خوشی، تسکین، توازن یا ہم آہنگی کے بُنیادی عوامل کو جس طرح جدید دُنیا کا انسان کم اہمیت دینے لگا ہے کہیں مُستقبل قریب میں انسان بالکل ہی تنہا نہ رہ جائے۔
سائنس اور سماجیات کا جو آپسی تعلق ہونا چاہیے وہ ویسا نہیں ہے۔ میں سائنس کی مُخالفت ہرگز نہیں کر رہا مگر میں سماجی رشتوں کی کم مائیگی پر دُکھی ہوں، سائنس مُختلف میدانوں میں بہت آگے نکل چُکی ہے اور سماجیات یا اخلاقیات اُس رفتار سے نہیں بڑھ پا رہی جس کی وجہ سے بہت ہی پیچیدہ سماجی بحران جنم لے رہا ہے ۔
میرا جدید اور سائنسی معاشروں پر الزام ہے کہ وہ نئی ایجادات تو دے رہے ہیں مگر اُس کے سماجی، سیاسی اور اخلاقی پہلوووں کو بالکل نظر انداز کر رہے ہیں جو نئی دُنیا کے انسانوں کو تباہ کُن اجنبیت سے روشناس کر رہی ہے۔ جس کی چھوٹی سی مثال موبائل فون اور سوشل میڈیا کا مروجہ استعمال ہے۔ گھر یا آفس کے اندر بیٹھے ہوئے لوگ موبائل کی سکرینوں پر نظریں جمائے آس پاس سے بے خبر زندہ اور روح کے ہوتے ہوئے بھی بُت بنتے جا رہے ہیں ۔ میرے تین سال کے بیٹے کو اپنے ماں باپ سے زیادہ دلچسپی موبائل کی سکرین اور اُس میں انسٹال بے جان گیم سے ہے تو وہ بڑا ہو کر بھلا کیونکر رویوں، سوچ اور معاشرتی جڑت میں اپنا کردار ادا کرے گا۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر