آجکل ڈیرہ اسماعیل خان میں ذرا رات کو ٹھنڈک بڑھی تو سوچا بڑی صندوق جسے یہاں پیٹی کہتے ہیں سے کچھ گرم کپڑے نکال لوں۔ اس پیٹی میں مجھے ایک پرانی سویٹر نظر آئی جو میری ماں نے گاٶں کی کسی لڑکی کو اون دیکر میرے لیے بنوائی تھی ۔
میں اس سویٹر کو دیکھ کر ایک نئی دنیا میں چلا گیا۔ ہمارے بچپن کا ڈیرہ کتنا مختلف تھا۔ گاوں کی لڑکیاں ہمارے تکیے ۔چادروں۔میزپوشوں پر خوبصورت پھول کاڑھ دیتیں کیونکہ ان کو یہ کام سیکھنے کے لیے کپڑوں دھاگوں کی ضرورت ہوتی وہ ہمارے گھر سے لے جاتیں۔
سویٹر بننے کے لیے رنگ برنگی اون کی ضروت ہوتی وہ یہاں سے لے جاتیں۔چادروں پر کشیدہ کاری سیکھنے کے لیے کپڑے لے جاتیں۔اصل میں گاوں میں کوئی باقاعدہ کشیدہ کاری سنٹر تو نہیں تھا مگر مختلف عورتیں جدا جدا ہنر جانتی تھیں اور لڑکیاں بھی اپنی پسند کا ہنر سیکھنے کے لیے متعلقہ استانی کے پاس جاتیں۔
کچھ عورتیں سیونگ مشین پر کپڑے سینے کا کام سکھاتی تھیں مگر سلائی کے لیے کپڑے کہاں سے آتے۔ بس وہ بھی ہمارے گاوں کے گھروں سے جن کے ایک سال یا دوسال کے بچے تھے وہ مہیا کرتے اور پہلے ان چھوٹے بچوں کے کپڑوں کی سلائی سے تربیت شروع ہوتی۔
اس مہینے نئی رضایاں بھی گھروں میں بنتیں۔کپاس بازار سے منگوا کر اس کو ایک چھڑی سے خوب دھنائی ہوتی۔پھر ترتیب سے ایک لمبی رضائی کے استر میں رکھ کر ایک بڑے سوے سے سیا جاتا۔ہمارے گھروں کے اندر چراغ جسے دیوا کہتے جلتے تھے۔
حیرانی کی بات ہے اس دیوے کا ماچس کی تیلی جتنا شعلہ ہمارے پورے ہال کمرے کو روشن رکھتا۔ ہمارے سکول کا بستہ یا بیگ بھی کپڑے کا تھا جس میں ایک کتاب پنسل ایک سلیٹ ایک سلیٹی ایک تختی دو سرکنڈے کے قلم اور چھوٹا سا گاچی کا ٹکڑا اور مٹی سے بنی دوات ہوتی۔ چھوٹی کالی سیاہ پڑیا دوات میں ڈال کر تھوڑا پانی شامل کر کے سیاہی بنتی اور پھر قلم دوات میں ڈبو کر تختی پر ہم سبق لکھتے۔
جب دونوں طرف تختی لکھ لی جاتی اور استاد چیک کر لیتا تو اس کو دھو کر گاچی لگا کر سوکھنے کو رکھ دیتے اور پندرہ بیس منٹ کے بعد تختی پھر لکھنے کو تیار۔ پھر کچی پنسل سے استاد لکیریں کھینچ کے سو خانے بنا دیتا اور ہم قلم کے ساتھ سو تک گنتی لکھتے۔
جب ہم دوسری کلاس پہنچے تو اب ہمارے پاس کاپی پنسل ربڑ اور شارپنر آ گیا۔انگریزی چار لکیر والی کاپی پر لکھ کر سیکھی۔ پہاڑے یا ٹیبل کورس میں گا گا کر یاد کیے۔ اگلی کلاسوں میں ہر مضمون کی علیحدہ کاپی اور ایک رف کاپی استعمال کرنا شروع کی۔
گھر میں بجلی اور ریڈیو آیا تو ریڈیو کے اوپر غلاف چڑھا کر رکھتے کہ مٹی نہ پڑے۔بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی خریدا تو آدھا وقت چھت پر چڑھ کر انٹینا ٹھیک کرتے گزرتا۔ گاوں میں کبھی کبھی محکمہ زراعت کی سینما وین آتی اور رات کو کچھ گانے اور کچھ زراعت کے جدید آلات سے متعارف کراتی ہم دیر تک اس وین کے سامنے فلم دیکھتے۔
پھر گاوں میں کنویں ختم اور ٹیوب ویل آ گیے۔پھر بیلوں کی جوڑی والا ہل پنجالی ختم اور ٹریکٹر آ گیے پھر مٹی سے بنے کچے مکان ختم اور اینٹوں کے پکے مکان بننے لگے جوں جوں ترقی ہوتی گئی ہمارے گاوں کے حجرے چونک غیر آباد ہونے لگے۔
گاوں کی آپس میں میل محبت کم ہونے لگی پھر ہم ایک بیسویں صدی کی سائنس کی دنیا میں آ پہنچے جہاں کسی کو کسی کی خبر نہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ