اچھا یار ملک سجاد میں چلتا ہوں۔رات کا پونا ایک بج رہاہے۔لگتاہے آج بھی دیوار پھلانگ کر گھر جانا پڑےگا۔بیٹھ یار مخمور بیٹھ ابھی تو ایک بجنے میں پندرہ منٹ باقی ہیں۔ٹھیک ایک بجے میں بھی بیٹھک سے گھر چلا جاوں گا اور تم بھی چلے جانا۔ بس یار میں اب جاتا ہوں۔ اچھا ٹھہر مخمور میں تھوڑا گلی کے نکڑ تک تمہیں چھوڑ آتا ہوں۔نہیں ملک سجاد میں چلا جاوں گا اپنا علاقہ ہے۔،،
یہ ڈیرہ اسماعیل خان ہے۔ شاعر کا اپنا شہر ہے۔امن وامان کی بابت کا کیا کہنا کہ رات کے ایک بجے بھی کوئ مسئلہ نہیں ہے۔لیکن شاعر کی کوئ مجبوری بنتی ہےکہ اسے پانچ چھ سال کیلئے اپنا شہر چھوڑ کر لیہ سکونت اختیار کرنی پڑتی ہے۔
یہ ڈیرہ اسماعیل خان ہے جب شاعر اپنے شہر میں واپس آتا ہے تو حالت کیا ہوتی ہے، مکالمے کی دو لائنیں دیکھیں، اچھا یار ملک سجاد میں چلتا ہوں۔ ہاں مخمور گھر چلے جاو، شام ہو رہی ہے اور حالات اچھے نہیں ہیں۔
مخمور زمانہ ٹھیک نوی
گھر رات کو جلدی آیا کر
یہ وہ باتیں ہیں جو شاعر نے نینوا، کے عنوان سے اپنی بات میں کی ہیں۔حالات کب اور کیسے خراب ہوتے ہیں۔زمانہ کیسی چال چل جاتاہے۔ایک نظم بھنوالی” کے عنوان سے اس نے لکھی ہے۔اس کا باپ گھر واپس آرہا ہے اور وہ بیٹے کو خط لکھتا ہے کہ بیٹا تمھارے لئے کیا کھلونا لاوں،
میکوں یاد ہے
کئ ور ہیں دے بعد ولا ول
پانڑی دی کئو سئو دا سن کے
خط لکھیا ہس
خط دی چھیکڑی سطر دے وچ پچھیا ہاسی
میڈا بچڑا تیڈے کیتے کیشے آناں
تاڑی مار کے میں آکھیا ہا
بابا سئیاں
چابی والی موٹر ہووے
اب نیا زمانہ ہوتا ہے۔ اور شاعر خود جب باہر سے گھر واپس آتا ہے تو وہ اپنے خیال موجب اپنے بیٹے کیلئے بھی چابی والی موٹر کار خرید کر آتا ہے مگر یہ کیا،
میں جیں و یلھے گھر آیاں ہاں
میں وی اپنے پتر دے کیتے
چابی والی موٹر آندی
بھل
اونہہ میکوں رو کے آکھیا
بابا سئیاں
میں تیکوں پستول آکھیا ہا
ایک زمانہ تھا جب محبت کی فلمیں بنتی تھیں اور اب ایکشن فلمیں بنتی ہیں اب تو ہر بچہ پستول، ٹینک ، کلاشنکوف خریدتا ہے۔سکول کے نصاب میں بھی ٹ سے ٹینک اور پ سے پستول پڑھایا جاتا ہے بچہ تو پستول مانگے گا۔ سرمایہ دارانہ نظام، جہاں صرف سرمایا سرمائے کو کھینچتا ہے، وہاں غریب آدمی بھلا کب امیر ہو سکتا ہے؟ یہ محض جھانسہ ہے وہ اپنی ایک نظم میں اشارہ کرتے ہیں،
ماما حقو
سبزی والا
بالیں اچ بیر و نڈنیدا راہندے
ہکو ہوکا ڈیندا راہندے
آو اج سستی سبزی گھنو
نت کہیں کندھلی نال کھڑوکے
میں ہک سوچ سوچیندا راہنداں
پتے کتلے مامے حقو
غربت دی جنگ ہر ویندے ہن
ہوکے ڈے کے مر ویندے ہن
شاعر کا شہر ڈیرہ اسماعیل خان جب دہشت گردی کی زد میں آیا تو اس نے ایک جامع شعر کہا،
توں قیامت دا صرف سنڑدا ہیں
ساڈے پاسے تاں آئی ودی رہی ہے
برصغیر کے خطے میں ہندو مسلم صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ رہتے آئے ہیں لیکن غدر کے بعد ہندو مسلم دشمنی کے بیج بوئے گے اور ہندو چائے، مسلم پانی کی آوازیں لگتی تھیں۔شاعر اپنے چھوٹے بھائی کو بتاتا ہے،
اے بابا سئیں فرمیندے ہن
ساڈے گھر دے نال کرڑاں دا
ہک کھوہ ہئی وہندا راہندا ہئی
ہک چھٹ درباری لٹھیاں دی
اتھ پانی آن کے پیندی ہئی
او ویلا پیار پریت دا ہئی
نہ لٹھے کلماں پڑھدے ہن
نہ او پانی کافر ہئی
ان کی شاعری میں مونجھ ایک اہم منتر بن کر سامنے آیا ہے۔وسیب کے دکھ، درد مونجھ بن کر شعر میں ڈھل جاتے ہیں، جس سے قاری مونجھ کا رقص کرتا ہوا پھر سے نیا ہو جاتا ہے۔بزرگ ہمارے وسیب کا اہم حصہ ہیں۔اور ہم یہ کہتے بھی ہیں کہ خدا آپ پر بزرگوں کا سایہ سلامت رکھے۔یہ بزرگ اپنے تجربے کی بدولت نئی نسل کی رہنمائی کرتے ہیں۔ لیکن جب بزرگوں کا سایہ سر سے اٹھتا ہے تو نہ کوئی نصیحت کرنے والا ہوتا ہے، نہ کوئی روک ٹوک کرنے والا۔ مخمور قلندری نے اپنی ایک نظم بابے جان کے حضور کی ہے۔ اس کی چند لائنیں دیکھیں،
کوئی ہووے ہا
جیڑھا آکھے ہا
توں اتلی سگریٹ کیوں پیندیں
تیڈا چہرہ پیلا کیوں تھی گئے
ونج گھر دو ونج میڈیں آندیاں تئیں
تئیں گھر توں باہر نکلنا نئیں
میکوں بابا اج احساس تھئے
کوئی ہووے ہا
جیڑھا آکھے ہا
مخمور قلندری کی اکثر شاعری ناستلیجیا کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔اگر چہ ان کا ناستلیجیا نرم دبیز پردوں میں کہانی کے سروں میں لپٹا ہوا ہے جو قاری کے اندر حسیاتی لطافتیں پیدا کرتا ہے۔ اس لئے قاری کو پڑھتے وقت خوشگوار حیرت ہوتی ہے ۔اور کئ کئ شعر اور نظم میں تو چونکانے والا رومانس بن کر قاری کے اندر جھرجھری کی سی کیفیت پیدا کرتا ہے،
کھیڈ کیا ہے اے ڈو جہانیں دی
ہک تماشہ ہے بئے تماشے وچ
ترشنا” مخمور قلندری کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔اگر چہ ان کی بہت سی نظمیں سرائیکی وسیب میں پہلے ہی مشہور ہوچکی تھیں ۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر