- نواز اور مریم کو "بیماری” کے نام پر ڈھیل مل گئی ، زرداری کو بھی ریلیف حاصل کرنے کی پیش کش
"پنشمنٹ” کی بجائے "سیٹلمنٹ” کرنی تھی تو "پانامہ” سے "اقامہ” تک کی فلم کیوں چلائی ؟
مبینہ ڈیل یا ڈھیل؟ کیا اپوزیشن عمران حکومت کو پانچ سال دینے پر آمادہ ہوگئی ؟
احتساب سے متوقع "یوٹرن ” سے پی ٹی آئی کا ووٹر مایوس ،عمران کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہونگے ۔۔
۔۔۔
لولی لنگڑی ریاست نے ایک بار پھر احتساب سےمنہ موڑ لیا ۔راتوں رات منظر بدل گیا ۔احتساب کے سب سے بڑے داعی وزیر اعظم اور وزراء کے لہجے تبدیل ۔سزا یافتہ نواز شریف اور مریم نواز کو بیماری کے نام پر ڈھیل مل گئی ۔ حکومت کی زرداری کو بھی عدالتوں کے ذریعے ریلیف حاصل کرنے کی پیش کش ۔بادی النظر میں مولانا کا پریشر کام کرگیا یا پھر دونوں بڑی جماعتوں نے مولانا کو اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر لیا۔کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ ختم نبوت کے نام پر نکلنے ولا مارچ ختم نبوت کے ایک مبینہ مجرم کی رہائی پر آکر شروع ہونے سے قبل ہی ختم ہوگیا ۔ کچھ کا کہنا ہے دونوں بڑی جماعتوں کے قائدین نے ڈھیل یا ڈیل حاصل کرنے کے لیے مولانا کو پریشر گروپ کے طور پر استعمال کیا،مارچ کے لیے مالی وسائل فراہم کیے گئے ۔مولانا کو بھرپور تھپکی دی گئی اور بالآخر حسب منشاء ڈھیل حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔۔ اگلا نمبر اب زرداری صاحب کا ہے لیکن وہ کچھ دے دلانے کے بعد ہی ریلیف حاصل کر پائیں گے کہ جعلی اکاؤنٹس کیس میں درجن بھر ملزمان انکے خلاف وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں اور ثبوت ایسے واضح ہیں کہ مفت میں جان چھوٹتی نظر نہیں آتی لیکن اس بات کے واضح اشارے موجود ہیں کہ انکے معاملے میں بھی احتساب لپیٹ دیا جائے گا۔
دکھ سکھ ایک حقیقت ہے اور ہر ایک کو اسکا سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم لاکھوں قیدیوں کو ایسے کوئئ حقوق حاصل نہیں جیسی سہولیات اور ماورائے قانون نوازشات ریاست نے اپنے چند چہیتے قیدیوں پر نچھاور کر رکھی ہیں ۔ ایک عام پاکستانی کو آج پھر ” دو پاکستان” بہت واضح انداز میں نظر آگئے ۔۔ اسی پاکستان میں دو ماہ قبل ایک قیدی گردوں کے مرض میں مبتلا ہوکر جان کی بازی ہار گیا تھا ۔اسے کسی نے علاج کے لیے ضمانت تو درکنار ہسپتال تک منتقل نا کیا اور وہ جیل میں ہی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا ۔
ایک اور واقعہ یاد آرہا ہے ۔
تحریک لبیک کے خلاف گزشتہ برس جب کریک ڈاون ہوا تو لالہ موسیٰ میں میرے ایک جاننے والے علامہ نور صاحب بھی گرفتار ہوگئے۔اس دوران انکی بیٹی فوت ہوگئی ۔ نہ تو علامہ صاحب نے کوئی کرپشن کی تھی نا قتل ۔نا کسی کا مال لوٹا تھا نا عزت ۔مسئلہ صرف ایک متوقع احتجاج سے روکنے کا تھا لیکن اسی لولی لنگڑی ریاست نے انکو بیٹی کی تدفین کی اجازت بھی نا دی اور دوماہ زیر حراست رکھنے کے بعد ہی انہیں گھر آنے دیا گیا ۔۔
اسی دوسرے پاکستان میں چند بڑے چور گرفتار ہونے کے اگلے روز ہسپتالوں میں پہنچا دئیے جاتے ہیں ۔ ایسے مافیاز کے لیے عدالتیں ، ضمانتیں انکے گھر کی لونڈیاں ہیں ۔اول تو پکڑے نہیں جاتے ،پکڑے جائیں تو بجائے شرمساری کے ہیرو بن جاتے ہیں ۔ریاست کروڑوں خرچ کر کے سزا دلوا بھی دے تو سزا کے بعد بھی انکے لیے ضمانتیں سہولتیں اور مراعات دستیاب ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ جب بالآخر ریاست نے گھٹنے ٹیکنے ہی ہوتے ہیں تو ہر پانچ دس سال بعد احتساب کے نام پر عوام کی آنکھوں میں یہ دھول کیوں جھونکی جاتی ہے؟ جب ریاست کے تلوں میں تیل نہیں تو عوام کو سبز باغ کیوں دکھائے جاتے ہیں؟ اگر ان سارے کرپشن مقدمات کا انجام پنشمنٹ کی بجائے سٹیلمنٹ ہی تھا تو پانامہ سے لیکر اقامہ تک کی فلم کیوں چلائی گئی؟
ہوسکتا ہے مقتدر حلقوں نے ملک میں سیاسی استحکام کے لیے یہ قدم اٹھایا ہو اور اس کے نتیجے میں موجودہ حکومت کو آزادی سے کام کرنے کے لیے پانچ سال مل جائیں لیکن کرپشن کے خاتمے اور چوروں کو لٹکانے کے وعدے پر ووٹ لینے والے وزیر اعظم پانچ سال بعد عوام کو کیا منہ دکھائیں گے ؟ اگر چہ گزشتہ ایک سال کے عرصہ میں موجود حکومت کے مقبولیت میں کافی کمی واقع ہوئی ہے اور اسکی ایک بڑی وجہ تمام کی تمام اپوزیشن کا منظم پروپیگینڈا بھی ہے تاہم اس کے باوجود عوام کی بہت بڑی تعداد عمران خان سے ابھی بھی امیدیں باندھے ہوئے ہے ۔خصوصا وہ لاکھوں افراد جنھوں نے "سٹیٹس کو ” کو توڑ کر تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا ۔ایسے تمام افراد کو احتساب کے معاملے پر متوقع ” یوٹرن” سے سخت مایوسی ہوئی ہے .اور یہی وہ لوگ تھے جو حقیقت میں تحریک انصاف کا اثاثہ تھے ۔ عمران خان ن لیگ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی وغیرہ کے کارکنوں کو کبھی خوش نہیں کر سکتے تھے البتہ وہ اپنے ووٹر کو ضرور جواب دہ ہیں ۔ وقت بتائے گا کہ احتساب سے منہ موڑنے کے اس مبینہ فیصلے کے انکی آئندہ سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔۔۔
۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر