ستمبر 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست سننے والا سپریم کورٹ کا بنچ تحلیل

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے ایک معزز ممبر بوجہ اپنے عزیز کی فوتگی بنچ میں نہیں آسکے۔ وہ لمبی چھٹی پر ہیں۔ ہم آج کیس کی سماعت نہیں کرینگے۔

اسلام آباد:صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست سننے والا سپریم کورٹ کا بنچ تحلیل  ہوگیاہے ۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت سپریم کورٹ کا دس رکنی فل بنچ کررہاتھا جسکی سربراہی جسٹس عمر عطا بندیال کررہے تھے۔

آج کی سماعت شروع ہوئی تو بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے  استفسار کی کہ کیا منیر ملک عدالت میں موجود ہیں؟

اس کے بعد جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے ایک معزز ممبر بوجہ اپنے عزیز کی  فوتگی بنچ میں نہیں آسکے۔ وہ لمبی چھٹی پر ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم آج کیس کی سماعت نہیں کرینگے۔ ہم چیف جسٹس کو نیابنچ بنانے کی درخواست کرینگے۔

درخواست گزار وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ اگر عدالت نیا بنچ بنانے جا رہی ہے تو فل کورٹ بنچ بنایاجائے۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نےکہا کہ کورٹ اپنے حساب سے بنچ تشکیل دیگا یہ چیف جسٹس کی صوابدید ہے۔ امید ہے اسی ہفتے دوبارہ کیس سنیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت

واضح رہےکہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل اپنے کزن مرحوم پولیس آفیسر شاہد حیات خان کی وفات کے باعث چھٹی پر چلے گئے ہیں۔

کیس کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا ٹاک میں  وائس چئیرمین پاکستان بار کونسل سید امجد علی شاہ  نے کہا کہ آج ہماری جسٹس قاضی فائز عیسی سے متعلق درخواستوں پر سماعت  تهی تمام درخواست گزار موجود تهے،ایک جج صاحب کی غیر موجودگی کی وجہ سے بنچ تحلیل کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی آرڈر ہوتا ہے تو اس کا مطلب انصاف نہیں ہو گا،بغیر کسی گراؤنڈ کے بنچ تحلیل کر دیا گیا،اس بنچ کے علاوہ ہمارا کسی دوسرے بینچ پر ہمارا اعتراض ہو گا۔

امجد علی شاہ نے کہا کہ ہم چاہیتے ہیں یہی بنچ کیس سنے،دو سماعتیں ایک جج سن چکے ہیں۔

سینئیر وکیل حامد خان نے کہا کہ یہ روایت ہے کہ جب ایک بنچ سماعت کرتا ہے تو پورا کیس وہی سنتا ہے،یہ فل کورٹ بنایا گیا تها چیف جسٹس کے پاس اختیار نہیں کہ کوئی دوسرا بنچ بنائیں۔

حامد خان نے کہا کہ یہاں کوئی مجبوری نہیں ہے اگر ایک جج نہیں ہے تو انتظار کیا جا سکتا ہے،سپریم کورٹ کا فل کورٹ کا آرڈر موجود ہے یہ تبدیل نہیں ہو سکتا،اگر ایسا ہوا تو یہ غیر آئینی اقدام ہو گا۔

سپریم کورٹ کے سینئیر وکیل علی احمد کرد نے کہاکہ اس کیس میں کیا ارجنسی ہے سمجه نہیں آتی،جب کسی نے بنچ تحلیل کرنے کی استدعا بهی نہیں کی پھر ایسا کیوں کیا گیا؟

سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن  رشید اے رضوی نے کہاکہ افتخارمحمد چوہدری کے کیس میں 2 ماہ پانچ دن کیس چلا،پہلے دن سے ہمیں لگ رہا ہے کہ ان ججز کا بس چلے تو دو گهنٹے میں فیصلہ کر دیں،کیا یہ کسی کے ریٹائرمنٹ سے پہلے فیصلہ دینا چاہتے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ ججمنٹ موجود ہے جب بنچ تشکیل دے دیا جائے تو بنچ تحلیل نہیں ہو سکتا۔

About The Author