میں اسے اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ شاعر نہیں تھا۔ لیکن وہ غضب کا سامع تھا مشاعرے کا جہاں سنتا یا اشتہار پڑھتا یہ وہاں پہنچ جاتا۔کتنے ہی شاعروں کا کلام اسے زبانی یاد ہے۔وہ شاعر نہیں تھا لیکن شاعروں کی قدر کرنا تو کوئی اس سے سیکھے۔ دامان سے ہجرت کرکے قصبہ کالا میں الیکڑیشن کی دکان کھولی۔دکان کیا تھی دوستوں،شاعروں کی بیٹھک (اوتاک) تھی۔لیکن اس نے ایک خالی جگہ کرائے پر لی اور وہ شاعر خانہ بن گئی۔جہاں دور دور سے شاعر اپنے نیاز مند سامع کی دعوت پر اکثر آتے رہتے تھے۔یہ جگہ (آستانہ) تھی جہاں نامور شاعروں اور دانشوروں سے مل بیٹھنے کا موقع ملا۔ایک دن اس سامع نے مجھے بتایا کہ اس نے ڈوہڑا لکھا ہے اور سنایا اور "عاجز” تخلص استعمال کیا، یوں کچھ دنوں کیلئے وہ سیف اللہ عاجز بنا۔دوستوں کی حوصلہ افزائ کام آئی اور اس نے باقاعدگی سے شاعری شروع کردی لیکن”عاجز” کی بجائے تخلص ” آصف” استعمال کیا،
یوں سیف اللہ آصف بن گیا۔شہرت کی دیوِی نے وہ کام کیا کہ تھوڑے ہی عرصے میں سرایئکی وسیب میں ڈوھڑے کا معتبر حوالہ بن گیا۔اس کی شاعری میں مونجھ پیلے آنچل (بوچھن) کے رومانس کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے۔اس کی دامانی سرشت کی سختی پر سرسوں کے پیلے بوچھن کے رومانس نے اس کی شاعری کو الگ سا اعتبار بخشا ہے۔
اسی پیلے بوچھن کے پاند (کنارے) سے اس نے، اس رمز کی چابیاں باندھ دی ہیں، جس کی سماج میں ثانوی حیثیت ہوتی ہے۔سیف اللہ آصف نے مرد ہوتے ہوئے بھی اس چنی کے پاند ملانے کی بات کی ہے جس میں ہم اس رمز تک پہنچ سکتے ہیں، جہاں انسانیت اترائے پھرے:
آو پاند سلھاڑوں چنیاں دے متاں راندی راند والا ڈیوے
رل باہووں گونگیں اکھیاں کو متاں وت کوئ شاند ولا ڈیوے متاں ساون بگڑو گاون دے کوئ ویلھے واند ولا ڈیوے
متاں آصف ڈھول کو ترس آ وے ہتھوں چھٹکیے پاند ولا ڈیوے
اس کی شاعری میں عورت خود سے اور اس خوبصورت کائنات سے اکتا نہیں گئی بلکہ وہ اس کائنات اور اپنی زندگی کے ہر پل کو خوشیوں سے بھر دینا چاہتی ہے،وہ پوری کائنات کیلئے نئی امنگیں اور خوشیوں کا پیغام لائی ہے۔
میں پینگھ تے جھوٹن ول آئی ہاں میڈا بوچھن جھل،میں جھوٹ گھناں
اڑی سنیگی پل دی زندگی ہے ہک واری ول، میں جھوٹ گھناں
تھئی جھٹ تیئں پینگھ پرائ ویسی چلو ہالی ہل، میں جھوٹ گھناں
متاں آصف میکوں نہ پکرن میڈیاں بانہیں کل، میں جھوٹ گھناں
” بوچھن دی گنڈھ کنجیاں” اس کا پہلآ شعری مجموعہ ہے اور اس کی شاعری میں شاعرانہ حسیاتی لطافتیں قاری کو مسحور کردیتی ہیں۔ اس نے اپنے وسیب کو خوشبو کی مانند محسوس کیا ہے۔اس کی شاعری میں ساون برسنے کو بے تاب اور گھاس ہی گھاس نظر آتی ہے۔سبزہ ہی سبزہ اور مویشی کھانے میں مست تو چرواہے گانے میں مست۔اس کی شاعری میں دامان کا رکھیپا نہیں بلکہ تازگی کے پھول کھلتے ہیں۔جہاں جوار، باجرہ، سرسوں ، پرندے ، جانور امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے:
ہلےہوڈاند آ، گاہ گڑھی وو گڑھی
اسے بارش نہ ہونے کا گلہ نہیں ہے۔اس کے درخت پریشان نظر نہیں آتے بلکہ اپنی جغرافیائی حقیقت سے باخبر اور ان کی شاخیں شہد کے چھتوں کیلئے سر جھکائے کھڑی ہیں۔ یہی مٹھاس اس کی پوری شاعری میں سمائی ہوئی ہے:
جھرپیاں بیریں بور کنوں ون ون تیں ماکھیں آر بھری
بھر ملخ جھلوراں بھرک پئے کوئی پڑ چاتے کوئی بار بھری
اڈوروح دے روہ تیں مینہ لہہ پئے اڈوساہ دی گنڈھ مونہہ تار بھری
ساڈے نال ہے آصف رنگیں دی کوئی کھیڈ عجیب اسرار بھری
اگرچہ غربت اس کے جوڑوں کا حصہ ہی رہی ہے لیکن اس نے یہاں اساطیری ٹوٹکے سے غربت کے اژدھا کو شکست دینے کی کوشش کی ہے۔اس نے شاعری میں دھرتی کے تماشائی حکمرانوں کو جھنجھوڑنے کی بات کی تو وہاں بھی سلیقے اور ادب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا:
ساڈے راکھے رج دی دھج وچ ہن ساڈی ہر شے چور چرائی ویندن
ون گانی ویندن گردے ہوئے ساڈے چردے ڈھور چرائی ویندن
ایں بھاگ بھریے ہوے بیلے دے نت نچدے مور چرائ ی ویندن
ساڈے آصف چاندن رل ویسن ساڈے چندر چکور چرائ ویندن
اس کی شاعری میں شعری حسیاتی لطافتیں پوری توانائی کےساتھ استعمال ہوئی ہیں اور انھیں حسیاتی لطافتوں نے اس کی مونجھ کو رومانس کا لبادہ پہنا کر نیا سنگھار کیا ہے۔ اگرچہ "بوچھن دی گنڈھ کنجیاں ” ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے لیکن کتاب آنے سے پہلے بھی ان کا سارا کلام سرائیکی وسیب میں مشہور ہوچکا تھا۔سیف اللہ آصف نے بنیادی طور پر ڈوھڑے کے شاعر سے شہرت پائ لیکن نظم ، غزل ، گیت اور تبرک کے طور پر کافی بھی لکھی اور اب کافی کی سمت میں رواں دواں دکھائی دیتے ہیں: آخر میں ان کی نئ کافی پیش خدمت ہے
اللہ سائیں دا ملک ہے اللہ سائیں دیاں بیریں ہن
چنگریں اتے پھل ہن پھلیں تیں چنگریں ہن
ساوے ساوے ون ہن ہک بئے دے جن ہن
پیلہوں آیاں جالیں وی بیریں دیاں ملیریں ہن
روہیں کال کوٹ ہن، سچ وانگوں جھوٹ ہن
کالے کالے بوٹ ہن، کنڈھ تیں کنڈیریں ہن
مٹیاں دے ڈاند ہن،چھنیگوآں دے گھوڑے ہن
سنجھ دے وچھوڑے وچوں،پھٹدیاں سویریں ہن
اللہ سائیں دا ملک ہے اللہ سائیں دایاں بیریں ہن
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر