تین سال پُرانی بات ہے، میری لاہور گلبرگ میں محلے کے لڑکوں سے لڑائی ہوگئی۔میں اکیلا تھا اس لیے مجھے مار بھی زیادہ پڑی۔لڑائی کے بعد پولیس کو فون کیا۔گلبرگ پولیس تب پہنچی،جب سب تتربتر ہوگئے۔جن سے لڑائی ہوئی ،مجھے ان کا گھر بھی پتا نہیں تھا۔پولیس والوں نے کہا چلو تھانے چلتے ہیں،درخواست جمع کرادو۔
میں پولیس وین میں ان کےساتھ بیٹھ گیا۔جیسے ہی محلے سے نکلے تھوڑی دیر بعد موٹرسائیکل پر سوار دو نوجوانوں نے ہمیں روکا۔اور اُن لڑکوں کا نام و پتہ بتایا جن سے میر ی لڑائی ہوئی تھی۔
شاید دونوں لڑکے ان کے مخالف گروپ کے تھے۔میں تھانے پہنچا اور واقعے کی درخواست لکھوادی۔کچھ دیر بعدوہاں سے گھر واپس آگیا۔درخواست کی پیروی کرنے میں دوسرے دن پھر تھانے پہنچ گیا۔تب تلک مخالف پارٹی تھانے میں رابطے کرچکی تھی۔
وہاں پہنچا تو تھانیدار نے بتایا کہ آپ نے اُن کے بوڑھے والد کو مارا ہے۔اس لیے انہوں نے آپ کو مارا۔اسی دوران انہوں نے دوسری پارٹی کے لوگوں کو بھی بلا لیا۔
مخالف پارٹی کے دس بارہ لوگ تھانے پہنچ گئے۔ان میں ایک اسی سالہ بزرگ بھی تھا۔جن کے بارے میں کہا گیا کہ میں نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔بابا جی کی سفید داڑھی اور نورانی چہرہ دیکھ کر میں مطمئن ہوگیا کہ یہ پولیس کو سب کچھ سچ بتادیں گے۔
تاہم جب بیان ریکارڈ ہوا تو بابا جی نے اپنے بازوں اور ٹانگیں پولیس کو دکھانا شروع کردیں۔جن پر ہلکے ہلکے سرخ نشان تھے۔شاید انہیں کوئی جلدی بیماری تھی۔
خیر پولیس کی جانب سےمجھے کہا گیا کہ یہ لوگ آپ کے خلاف درخواست لکھوا رہے ہیں۔جس کے بعد آپ کو بھی ان کے ساتھ تھانے میں رکھنا پڑے گا۔
اگر آپ چاہیں توان سے صلح کرسکتے ہیں۔تھانے میں رات گزارنے کی بات سن کر میں سُن ہوگیا۔تھانے دار نے کہا آپ کو سوچنے کےلیے دس منٹ کا وقت دیتے ہیں،باہر جائیں سوچ کر آئیں کیا کرنا ہے۔میں باہر چلاگیا۔دوستوں سے فون پر مشورہ لیا۔آخر میں یہی بات طے پائی کہ صلح کرلی جائے تو بہتر ہوگا۔
خیر یہ تو تھی میری کہانی،اب چلتےہیں اصل معاملے کی طرف،چند روز قبل رحیم یار خان سے ایک خبر موصول ہوئی۔جس میں ایک ایف آئی آر کا عکس بھی تھا۔اُس میں ایک خاتون پر یہ الزام تھا کہ اس نے ایک نوجوان کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔نوجوان کو نشہ آور چیزکھلا کر اس کے جسم کے نازک حصوں پر دانت سے کاٹا ہے۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔
ایف آئی آر کے عکس کے ساتھ اُس خاتون کا ایک ویڈیو بیان بھی تھا۔جس میں وہ رحیم یار خان پولیس کو دہائیاں دے رہی ہے ۔ویڈیو بیان سننے کے بعد میں نے خبر کے حقیقت جاننے کی ٹھان لی۔
رحیم یار خان میں اپنے ٹی وی کے نمائندے سے رابطہ کیا۔خبر سے متعلق اس نے تمام چیزیں مجھے ارسال کردیں۔ایک دن کی تحقیق اور کانٹ چھانٹ کے بعد جو حقیقت سامنے آئی کچھ یوں ہے۔
چند روز قبل 58سالہ ٹیچر کے گھر میں چوری ہوئی۔شک کے بنا پر اُس نے اپنے کرایے دار لڑکوں کے خلاف درخواست دے دی۔پولیس نے چوری ثابت ہونے پر لڑکے کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔
بعد ازاں ملزم پارٹی کے طرف سے پولیس کو مبینہ رشوت دی گئی۔جس کے بعد پولیس نے خاتون پر صلح کےلیے پریشر ڈالا۔خاتون نہ مانی اوراپنے موقف پر ڈٹی رہی
پنجاب پولیس نے خاتون ٹیچر کو سبق سکھانے کی ٹھان لی۔ملزم کی مدعیت میں اس کے خلاف ایف آئی آر کاٹ دی۔جس میں درج بالا گھناونے الزامات لگائے گئے۔جنہیں میں دوبارہ لکھنا بھی نہیں چاہتا۔سب سے اہم نقطہ یہ ہےکہ میڈیکل رپورٹ میں لڑکے سے جنسی زیادتی ثابت نہیں ہوئی۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رحیم یار خان پولیس نےخاتون کو ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسانے کی کوشش کی۔
کوشش بھی ایسی کہ جس سے وہ معاشرے میں منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔یہ صرف دو واقعات نہیں ہیں،پنجاب پولیس نہ جانے روزانہ کتنی بار قانون سے کھلواڑ کرتی ہے۔آخر میں یہی کہوں گا کہ حکومت کی طرف سے پولیس ریفارمز کے دعوے ایک طرف مگر۔۔۔پنجاب پولیس جو چاہے کرشمہ ساز کرے۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر