لاہور:جسٹس قاضی فائز عیسی نے عاصمہ جہانگیر کی یاد میں منعقدہ تقریب سے خطاب میں کہا کہ 1973 میں پاکستان کا متفقہ آئین بنا جسے ہم سب مانتے ہیں۔ 1973 کا آئین کہتا ہے کہ ملک کو لوگوں کے چُنے ہوئے نمائندے چلائیں گے۔اس میں عدلیہ کی آزادی بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ضیا الحق نے بھی وعدہ کیا کہ وہ لوگوں کے نمائندوں کو اقتدار سونپے گا لیکن وعدہ پورا نہ کیا، پھر ریفرنڈم کے ذریعے خود کو صدر بنا دیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ 1973 کا آئین متفقہ طور پر منظور ہوا، ضیا الحق نے آئین کو معطل کرنے کے بعد 90 دن میں انتخابات کا وعدہ کیا مگرضیاالحق ہمیشہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرتے رہے۔
قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ضیا کے بعد پھر جنرل مشرف کا مارشل لا لگا۔مشرف نے پولیٹیکل ری سٹرکچرنگ کا کہا۔ پھر اس نے بھی ریفرنڈم کرایا پچھلے جرنیل کی طرح حالانکہ آرٹیکل 5 کے تحت ریاست سے تنخواہ لینے والے آئین پرعمل کے پابند ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم آئین کے پابند رہیں۔ قائد اعظم بھی چاہتے تھے ملک میں جمہوریت رپے۔ جب بھی ڈکٹیٹرشپ آئی اسکا نتیجہ ملک کے لیے اچھا نہیں نکلا۔
قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آئین سے وفاداری ہر شہری کا فرض ہے ،جو لوگ آئین کے تحت حلف لیتے ہیں ان پر عوام سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ ہم لوگوں کو اپنے اسلاف کی قربانیوں کی قدر کرنی چاہیے۔
سپریم کورٹ کے سینیئر جسٹس نے کہا کہ ہمیں ماضی کو یاد رکھنا چاہیے جس سے سبق حاصل.کرتے ہیں ،ڈکٹیٹروں کی لامتناہی طاقت کے حصول کی خواہش نے قرارداد مقاصد کی خلاف ورزی کی۔
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ