دسمبر 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مسلم لیگ (ن) تقسیم ہو گئی؟ ۔۔۔ارشد وحید چوہدری

شیخ رشید کی پیش گوئی کے عین مطابق پارٹی کی دو دھڑوں میں تقسیم اس وقت بالکل واضح ہوگئی جب مولانا فضل الرحمٰن نے آزادی مارچ کا اعلان کر دیا۔

وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید ویسے تو بہت پیش گوئیاں کرتے رہتے ہیں جن میں سے کبھی کوئی ایک آدھ درست بھی ثابت ہو جاتی ہے اور یوں شیخ صاحب کی سیاسی دکان چلتی رہتی ہے۔

شیخ صاحب گزشتہ کچھ عرصے سے مسلسل پیش گوئی کرتے رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) دو دھڑوں میں تقسیم ہو جائے گی، شیخ رشید کو جاننے والے بخوبی ادراک رکھتے ہیں کہ وہ ہر بات کسی مخصوص معلومات کی وجہ سے کرتے ہیں اور ان کی معلومات کا منبع کہاں ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اس لئے ان کی معلومات تو کافی حد تک درست ہوتی ہیں لیکن ان سے وہ جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں وہ بعض اوقات انہی کے الفاظ میں ان کی خواہش اور خبر تک ہی محدود رہتا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما اپنی جماعت کے دو دھڑوں میں تقسیم ہونے کی باتوں سے لاکھ اختلاف کریں اور بھلے اختلاف رائے کو جمہوریت کا حسن قرار دیتے رہیں لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ اب تو معاملات پارٹی قائد نواز شریف کی ہدایات سے پہلو تہی کرنے تک جا پہنچے ہیں۔

پارٹی میں دو مختلف آراء کا سلسلہ تو گزشتہ سال جولائی میں نواز شریف کے بیٹی سمیت لندن سے گرفتاری دینے کے لئے آنے کے وقت سے شروع ہو گیا تھا تاہم اس میں شدت اس وقت پیدا ہوئی جب دوسری بار بیٹی سمیت جیل جانے والے نواز شریف کو یہ تشویش لاحق ہونے لگی کہ ووٹ کو عزت دو کے ان کے بیانیے پہ پارٹی قیادت اور سب رہنمائوں کی طرف سے سر تسلیم خم نہیں کیا جا رہا۔

یہی وجہ تھی کہ نواز شریف نے دوسری بار کوٹ لکھپت جیل جاتے ہوئے کارکنوں کے نام ایک وڈیو پیغام جاری کیا تھا جس میں انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ انہیں کرپشن نہیں بلکہ ووٹ کو عزت دو کے بیانیے پہ ثابت قدم رہنے کی سزا دی جا رہی ہے۔

نواز شریف تو اسی مزاحمتی بیانیے کو ساتھ لے کر ایک بار پھر قید وبند کی صعوبتیں بخوشی جھیلنے لگے اور ان کی بیٹی نے بھی اس علم کو تھام کر تب تک کارکنوں کے لہو کو گرمائے رکھا جب تک انہیں بھی دوبارہ حراست میں نہیں لے لیا گیا لیکن دوسری طرف پارٹی قیادت اور رہنما بتدریج مزاحمت سے مفاہمت کی سیاست کی طرف مائل ہوتے گئے۔

پہلے پہل تو صدر مسلم لیگ (ن) شہباز شریف پارٹی اجلاسوں میں دبے لفظوں میں محاذ آرائی کا راستہ نہ اپنانے کے لئے پارٹی رہنمائوں کو قائل کرتے رہے تاہم جب ان کی ذات پہ براہ راست تنقید شروع ہونے لگی تو وہ بھی اپنے بیانیے کی حمایت میں دلائل دیتے ہوئے کھل کر سامنے آ گئے۔

شیخ رشید کی پیش گوئی کے عین مطابق پارٹی کی دو دھڑوں میں تقسیم اس وقت بالکل واضح ہوگئی جب مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت مخالف آزادی مارچ کا اعلان کر دیا۔

ابتدا میں تو پائوں پیچھے کھسکانے کا بہانہ مولانا کی طرف سے اے پی سی بلائے بغیر یک طرفہ اعلان کرنے کو قرار دیا گیا تاہم جب پارٹی کارکن پھر بھی نہ بہل پائے تو تیاریوں کے لئے وقت درکار سمیت دیگر جواز گھڑنے کی کوششیں کی گئیں اور مارچ کو نومبر تک موخر کرنے کی تجویز دی گئی،

پارٹی قیادت اور مرکزی رہنمائوں کی اکثریت کی طرف سے ہدایات پہ من و عن عمل نہ کرنے کی اطلاعات جیل میں نواز شریف تک بھی پہنچ رہی تھیں جس پہ انہوں نے خفگی کا اظہار کیا اور پھر اپنے بیانیے کا اظہار اپنے داماد کیپٹن صفدر کی زبان کے ذریعے کر کے نہ صرف ان لوگوں کی غلط فہمی دور کر دی جو سوچ رہے تھے کہ اب نواز شریف ووٹ کو عزت دینے کی ضد چھوڑ دیں گے بلکہ پارٹی کو بھی باور کرا دیا کہ مسلم لیگ (ن) میں صرف انہی کی ہدایات پہ عمل ہوگا۔

یہ بھی نواز شریف کا پارٹی قیادت اور ان کے ہمنوائوں پہ عدم اطمینان ہی تھا کہ انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن کو حکومت مخالف احتجاج میں شریک ہونے کا پیغام بھی کیپٹن صفدر کے ذریعے ہی بھجوایا۔

گزشتہ دنوں لاہور میں اپنی رہائش گاہ پہ منعقدہ پے در پے پارٹی اجلاسوں میں شہباز شریف نے آزادی مارچ میں شرکت نہ کرنے کے حق میں بھرپور دلائل دئیے اور کہا کہ آزادی مارچ کی ناکامی کی صورت میں حکومت کو نئی زندگی مل جائے گی۔

اس دوران وہ تمام رہنما ان کے ہم زبان تھے جو کل تک نواز شریف کو تھپکی دیتے تھے۔ پارٹی میں تقسیم کا یہ عالم ہے کہ نواز شریف کے بیانیے پہ بدستور ڈٹے رہنے والے پرویز رشید جیسے رہنمائوں کو 12اکتوبر کے پارٹی اجلاس میں شرکت کی دعوت ہی نہیں دی گئی۔

اب مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے نواز شریف کی ہدایات پہ من و عن عمل کرنے اور مولانا کے آزادی مارچ میں بھرپور شرکت کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن نواز شریف اپنے بھائی اور ان کے ہم خیال پارٹی رہنمائوں کی نیت سے بخوبی آگاہ ہیں اسی لئے انہوں نے شہباز شریف کے نام لکھے خط میں یہ بھی ہدایت دے دی ہے کہ مولانا کے حکومت مخالف احتجاج میں شرکت کا جامع پروگرام ترتیب دے کر اس کی ذمہ داری باصلاحیت اور دلیر لوگوں کو دے دیں۔

شہباز شریف نے چودہ اکتوبر کو اجلاس میں پارٹی رہنمائوں کو نواز شریف کا خط پڑھ کر سناتے ہوئے اس جملے پہ رک کر کہا کہ میں تو بزدل ہوں بھئی۔ جہاں یہ سچ ہے کہ شہباز شریف اپنے بھائی سے لاکھ اختلاف کریں لیکن وہ ان سے راہیں کبھی جدا نہیں کر سکتے وہیں یہ بھی جھوٹ نہیں کہ نواز شریف کی طرف سے خط میں لکھا گیا یہ جملہ مسلم لیگ (ن) میں تقسیم پہ مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔

About The Author