کراچی: سانحہ کارساز کراچی کو بارہ سال بیت گئے،دردناک واقعے میں پیپلزپارٹی کے149 کارکنان اورجیالے شہید ہوئے ہرسال واقعہ کی یاد میں اس دن شہدا کو یاد کیا جاتا ہے
کراچی کے علاقے کارساز کے مقام شاہراہ فیصل پر وہ سانحہ ہوا جو بارہ سال گزرجانے کے باوجود بھلایا نہیں جاسکا۔
پی پی پی کے جیالے ملک بھر سے سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو شہید کی وطن واپسی پر ان کا استقبال کرنے کراچی پہنچے تھے۔
عوام کا ایک جم غفیر محترمہ کے استقبال کے لیے موجود تھا،۔سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹوکا قافلہ جلسہ گاہ کی طرف بڑھ رہاتھا اس موقع پر کارکنان کی خوشی دیدنی تھی، ہر ایک کا چہرہ اپنی قائد کو دیکھ کر جگمگا رہا تھا۔
کاروان جمہوریت اور جانثاران بے نظیر کو اس وقت خون میں نہلادیا گیا جب وہ کارساز پہنچے۔ ٹھیک رات بارہ بج کر 52 منٹ پر 50 سیکنڈ کے وقفے سے یک باد دیگرے دو دھماکے ہوئے۔
اس موقع پر ہوئے دو خود کش حملوں میں 149 معصوم جانیں ضائع اور00 4 سے زائد افرادزخمی ہوئے ۔
سانحہ کارساز کے ضمن میں دومقدمات درج کئےگئے۔ دوسری ایف آئی آر سندھ کے سابق وزیر اعلی سید قا ئم علی شاہ نے درج کرائی۔
دھماکے کی جگہ کو بھی اسی رات دھو دیا گیا تھا جس کی وجہ سے کئی اہم ثبوت ضائع ہوگئے۔پولیس نے مختلف افراد کو حراست میں لیا لیکن ٹھوس ثبوت نہ ملنے پر ان کو بھی رہا کردیا گیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے اپنی کتاب میں جس حزب المجاہدین کے قاری سیف اللہ اختر کا ذکر کیا اس سے بھی تفتیش کی گئی۔
سیف اللہ کا امیگریشن ریکارڈ چیک کیا گیا تو پتہ چلا کہ محترمہ کے کراچی کے جلوس میں دھماکے کے وقت وہ دبئی میں تھا اس لئے اسے چھوڑ دیا گیاجوبعد میں ڈرون حملے میں مارا گیاتھا ۔
اس کیس کے انویسٹی گیشن آفیسر ڈی ایس پی نواز رانجھا کو بھی قتل کردیا گیاتھا،۔بےنظیر بھٹو کی شہادت کی تفتیش کرنے والے اقوام متحدہ کے کمیشن نے کراچی کا بھی دورہ کیا اور اس واقعہ کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں۔
تفتیشی ٹیم کی جانب سے دوسری ایف آئی آر کا سبب بننے والے محترمہ بے نظیر بھٹو کاوہ اہم خط بھی بارہا درخواست کے باوجود تفتیشی حکام کو نہیں ملا ہے جس کی وجہ سے تفتیش آگے نہ بڑھ سکی ۔
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ