خان صاحب کی شخصیت کے بے شمار پہلو ایسے ہیں جو نہ صرف دنیا کو حیران کر دیتے ہیں بلکہ کبھی کبھار تو پریشان بھی کر دیتے ہیں۔
پاکستان کے لوگوں نے کیا قسمت پائی ہے، ایسے ایسے حکمرانوں نے اس مملکت خدا داد کی باگ ڈور سمبھالی کہ دنیا کو ششدر کر دیا۔
رنگ برنگے جرنیلوں سے لیکر امپورٹڈ قسم کے سویلینز تک سب نے اس ملک کی قسمت سنوارنے کا بیڑہ اٹھایا، بعض نے تو تن تنہا ہی اٹھا لیا۔
اب کی بار اس ملک کو عظیم سے عظیم تر بنانے کا ذمہ ” تبدیلی سرکار” کے کندھوں پر لاد دیا گیا اور کپتان نے اس ذمہ داری کو خوش دلی سے نہ صرف قبول کیا بلکہ اپنے ساتھ ” نیک” لوگوں اور جنات کو بھی ملا لیا تاکہ اسلام کے اس ” قلعے” کو "ناقابل تسخیر” والے پرانے خواب کو جلد سے جلد پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔
اس مقدس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے ہمارے کپتان کو چو مکھی لڑائی لڑنی پڑی رہی ہے، جس میں کپتان کے کھلاڑیوں نے ایسے ایسے داؤ پیچ مارے ہیں کہ ساری دنیا عش عش کر اٹھی۔
جیسا کہ” کرپٹ ٹولا” ملک کے عظیم ادارے نیب کے سپرد کر دیا، خارجہ پالیسی نہایت ہی تجربہ کار اور کہنہ مشق کھلاڑیوں یعنی ” راولپنڈی” والوں کو دے دی، داخلہ کے امور کو ” شاہوں” کے سپرد کریا، جنات کا شعبہ ” مادر وطن ثانی” کے حوالے کر دیا اور خود تسبیح کے منکوں سے اللہ کو راضی کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔اگر پھر بھی اس ملک کے عوام اپنے کپتان سے مطمئن نہیں ہیں تو اس یہ بہت ہی ” ناشکرے” ہیں۔
اتنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود یہ چند شر پسند عناصر کپتان کی تیرہ ماہ کی کارکردگی کو خواہ مخواہ تنقید کا نشانہ بنانے کا کوئی بہانہ ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے۔
مثلا کل ہی کی بات ہے تھڑوں پر بیٹھنے والے چرسی قسم کے دانشور خان کی تسبیح پر گفتگو فرما کر اپنے ہی کندھوں پر جواہ مخواہ گناہوں کا بوجھ لاد رہے تھے کہہ رہے تھے کہ خان صاحب باہر اور اندر جب بھی اہم شخصیات سے میٹنگ کرتے ہیں تو ان کو تسبیح کے منکوں کی طرح ” گھما” کے رکھ دیتے ہیں۔
دوسرے نے بات کو مزید بڑھاتے ہوئے کہا کہ میں جب چرس زیادہ پی لیتا ہوں تو عجیب مخمصے اور کنفیوژن کا شکار ہو جاتا ہوں اور ایسی کنفیوژن پر قابو پانے کیلئے میں بھی اپنے گھر والوں یا زیادہ لوگوں کو دیکھ کر تسبیح گھمانا شروع کر دیتا ہوں تاکہ میرے نفسیاتی پہلو کی کمزوری عیاں نہ ہو سکے۔
میں نے اس نا ہنجار شخص سے پوچھا تو آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کپتان بھی۔۔۔۔۔اس نے میری نامکمل بات کو کاٹتے ہوئے کہا ” کیا پدی کیا پدی کا شوربہ” ۔
مگر اگلے ہی لمحے ایک ” موالی” نے نعرہ حیدری لگا کر اپنے دماغی بوجھ کو چٹک دیا اور اس اہم راز سے پردہ فاش ہوتے ہوتے رہ گیا۔
دو تین منٹ کی خاموشی کے بعد یہ ” چرسی” پھر سے اپنے دماغ کی ہدایات کو وصول کرنے کے قابل ہوئے تو دنیاوی امور پر پھر سے بحث کا آغاز کر دیا۔
فرمانے لگے کہ نارمل کیفیت اور جھولے لعل کی مسافت میں ” یوٹرن” لے لینا ایک لازمی جزو ہے ورنہ کیفیات کی رنگا رنگی ماند پڑ جاتی ہے اور انسان ابنارمل ہو جاتا ہے۔
کیا مطلب جو جھولے لعل والی کیفیت سے نا آشنا ہیں وہ ابنارمل زندگی گزار رہے ہیں ؟
آپ ان باتوں تک نہیں پہنچ سکتے یہ معرفت کی باتیں ہیں یہ عام لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہیں اور یہ مادیت پرست دنیا نہ ہی ہمارے کپتان کی باتوں کو سمجھ سکتی ہے اور نہ ہی ہماری باتوں کا ادراک کر سکتی ہے، اس دوران زور دار نعرہ حیدری لگا اور کسی شرپسند نے کہا کہ یہ ایسی کیفیت ہے کہ جس میں جاپان کی سرحدیں جرمنی سے جا ملتی ہیں اور صاحب لوگ صاحبہ لگنے لگتے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر