نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لیجیے کرد مسئلے کے حوالے سے ذرا تفصیلی تحریر۔۔۔شاہجہاں سالف

عثمانی خلافت کے قیام کے بعد آدھا علاقہ عثمانی خلافت یعنی ترکی کے قبضے میں رہا اور آدھے علاقے پر ایران کے صفوی حکمران قابض رہے۔

شاہجہاں سالف


کرد قبل مسیح سے اس خطے میں موجود ایک نسل ہے جو اصل میں فارس کی ایک نسل ہے۔۔ اسلام سے پہلے کرد علاقوں پر بازنطینی اور ساسانی الگ الگ ریاستوں کا قبضہ رہا پھر اسلام نے ان علاقوں پر قبضہ کیا۔ بعد میں آدھا علاقہ صلاح الدین ایوبی اور آدھا علاقہ شیعہ حکمرانوں کے زیر قبضہ رہا۔

عثمانی خلافت کے قیام کے بعد آدھا علاقہ عثمانی خلافت یعنی ترکی کے قبضے میں رہا اور آدھے علاقے پر ایران کے صفوی حکمران قابض رہے۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد جب عثمانی خلافت کا خاتمہ ہوا اور اتحادی سارے خطے کی بندر بانٹ کر رہے تھے اور نئی ریاستیں معرض وجود میں آ رہی تھیں تو انیس سو بیس کے سیورے معاہدے میں کردستان کی بنیاد کا بھی کہا گیا تھا مگر کمال اتاترک اور دیگر حکمران اس سے انکاری ہو گئے اور کردستان کے علاقے ترکی، ایران، عراق اور شام کے قبضے میں رہ گئے۔

کردوں کی تعداد اس وقت پچاس ملین (پانچ کروڑ) ہے جن میں سے سب سے بڑی تعداد ترکی میں آباد ہے اور باقی ایران، عراق، شام میں ہے۔۔ کردوں کی ایک بہت بڑی تعداد یورپ اور کینیڈا میں مہاجرت کی زندگی گزار رہی ہے اور کردوں کو دنیا کی سب سے بڑی سٹیٹ لَیس قوم کہا جاتا ہے۔

کردوں کا کلچر ایک ہے، یہ بہت اوپن مائنڈڈ لوگ ہیں۔۔ یہ جس ریاست میں آباد ہیں ان کی زبان وہاں کی ہے مثلا” عربی، فارسی، ترکش وغیرہ۔۔ یہ بیشتر مسلمان ہیں اور ان کی بڑی تعداد سنی ہے جبکہ شیعہ، یزیدی اور دیگر مسالک بھی ان میں موجود ہیں۔

ان میں ایک بہت بڑی تعداد بائیں بازو اور سوشلسٹوں کی بھی ہے۔

انیس سو بیس کے سیورے معاہدے کے بعد ایک بہت بڑی تعداد میں کردوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے اور لاکھوں کرد مارے جا چکے ہیں۔

کرد آزادی اور اپنے تشخص کی بحالی کے لیے پچھلی کئی دہائیوں سے سیاسی و مسلح جدوجہد کر رہے ہیں۔۔ سب سے اہم تحریک عراق میں تھی سو عراقی صدام حسین نے ان کا بے تحاشا قتل کیا۔۔ عراق کے مقابلے میں کچھ طاقتیں کردوں کو سپورٹ کر رہی تھیں مگر عراق ایران معاہدے کے بعد رضا شاہ پہلوی اور امریکہ نے بھی کردوں کے خلاف بہت بھیانک جرائم کیے۔

دوہزار گیارہ کی عرب بہار کے بعد جب عوامی تحریکوں کو مذہبی شدت پسندی کی جنگ میں بدلا گیا اور داعش نامی عفریت نے عراق اور شام کو اپنے قبضے میں لیا تو کردوں نے شام اور عراق میں داعش کے خلاف جنگ کی۔۔ عراق میں کرد گروپ اور امریکہ داعش کے خلاف اتحادی تھے۔۔ دوسری طرف طیب اردگان اور امریکہ بھی اتحادی ہیں اور اردگان کا بھائی داعش کے زیر قبضہ علاقوں کا تیل فروخت کرنے کا سب سے بڑا لیڈر ہے اور داعش کی تمام سرگرمیاں ترکی سے ہی کنٹرو ہوتی ہیں۔۔ خطے کے تیل کے ذخائر اور روسی پائپ لائن جو روس سے یورپ کو گیس دیتی ہے پر قبضہ کے لیے قطر، اسرائیل، سعودیہ، یو اے ای حتی’ کہ پاکستان بھی اس اتحاد کا حصہ ہے۔

داعش کی پسپائی کے بعد عراقی کردوں نے عراق میں اپنی الگ ریاست کے قیام کی کوششیں شروع کیں اور ریفرنڈم کروایا جس میں نوے فیصد کردوں نے کردستان کے قیام کے حق میں ووٹ دیا۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ عراق میں کرد علاقہ کرکیک ہے جس میں عراق کے پچاس فیصد تیل کے ذخائر موجود ہیں۔۔ عراق نے یہ ریفرنڈم ماننے سے انکار کر دیا اور چونکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بھی علم ہے کہ کردستان بننے کے بعد یہاں سے انہیں کچھ نہیں ملنے کا تو انہوں نے بھی اسے ماننے سے انکار کر دیا۔۔
امریکہ نے عراق ترکی بارڈر سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں اور ترکی کے لیے راہ ہموار کر دی۔۔
کرد لیڈر نے امریکی سفیر سے کہا کہ تم لوگ ہمیں ذبح ہونے کے لیے چھوڑ کر جا رہے ہو۔۔ ہم جانتے ہیں کہ تمہارے جاتے ہی ترکی ہمیں ذبح کرے گا۔

اور وہی ہوا۔۔ امریکہ کے نکلتے ہی ان علاقوں پر ترکی نے شدید بمباری کی جن میں سینکڑوں بچوں سمیت ہزاروں کرد مارے گئے اور ابھی تک یہ حملے جاری ہیں۔

داعش کے مقابلے میں ایران بھی تھا اور ایران کے حمایت یافتہ حزب اللہ بھی مگر کردوں کے معاملے میں ایران بھی داعش بن جاتا ہے کیونکہ وہ بھی ایک بہت بڑے کرد علاقے پر قابض ہے۔

ترکی کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر عراقی کرد آزادی حاصل کرتے ہیں تو اس کے بعد ترک مقبوضہ کردستان بھی ترکی کے ہاتھ سے نکلے گا اور ایران اس لیے کردوں کی اموات پر نہ صرف چپ ہے بلکہ کردوں کے قتل میں ملوث ہے کیونکہ خود ایران کا یہی مسئلہ ہے کہ وہ کرد علاقوں پر قابض ہے۔۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے پاکستان انڈین مقبوضہ کشمیر کی انڈیا سے آزادی نہیں چاہتا کیونکہ اس کے بعد خود پاکستانی مقبوضہ کشمیر بھی پاکستان کے ہاتھ سے نکل جائے گا سو پاکستان کشمیر کو ایک اسلامی اور پاکستانی مسئلہ بنا کر دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔

کرد علاقے پر قبضے کے علاوہ خطے میں موجود وسائل پر قبضے کی لگن اور منافعوں کی چاہ ہے جس کی وجہ سے سامراجی طاقتیں اکٹھی ہیں اور کردوں کو مار رہی ہیں جن میں ترکی اور ایران بھی شامل ہیں۔۔
کردوں کے کئی گروپ مسلح جدوجہد بھی کر رہے ہیں اور سیاسی جدوجہد بھی جاری رکھے ہوئے ہیں جن میں زیادہ اہم بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ہیں۔

المختصر یہ کہ کردوں کے قاتل اور دشمن ترکی، عراق، شام اور ایران کے علاوہ وہ سامراجی طاقتیں بھی ہیں جو خطے کے وسائل پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں اور جو خطے میں کسی صورت امن نہیں چاہتے۔۔ کسی کو یہاں پر قبضے کا لالچ ہے، کوئی یہاں کے وسائل پر قبضہ چاہتا ہے، کسی کا اسلحہ بک رہا ہے، کوئی اپنے افراد یہاں جہاد کے لیے کرائے پر دے رہا ہے، کوئی اس گند میں اس لیے شامل ہے کہ اس گند میں قطر، سعودی عرب اور امریکہ شامل ہیں۔

کردوں کے مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ خالص انسانی بنیادوں پر کردستان کا قیام عمل میں آئے اور یہ اتنی آسانی سے نہیں ہوگا۔۔ کرد ایک سوشلسٹ کردستان کے قیام کی کوششوں میں ہیں جو اور بھی زیادہ مشکل ہے۔۔ کردوں کو ایک بہت بڑی جنگ لڑنا ہوگی۔

آخری فتح انسانیت کی ہی ہوتی ہے۔۔ طیب اردگان جیسے کئی ظلم کے دلال آئے اور چلے گئے تو یہ بھی چلا جائے گا۔

ایک دن ضرور حقیقی سحر طلوع ہوگی۔۔ ایک دن فتح انسانیت کی ہوگی۔

About The Author