جاوید اختر بھٹی
ڈاکٹر خیال امروہوی قادرالکلام شاعر تھے ، انہوں نے ساری زندگی لیہ میں بسرکی ۔ ان کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی ادب کی خدمت کررہی ہے۔ جو چراغ انہوں نے جلائے ان کی روشنی آج بھی قائم ہے ۔ جسارت خیالی کو ان کی شاگردی کی سعادت حاصل ہوئی ۔ انہوں نے برسوں بعد بھی اپنے استاد کو خراج عقیدت پیش کیا ۔ فراموشی کی عادت اختیار نہیں کی ۔
اپنے استاد کے کلام کو زندہ رکنے کیلئے انہوں نے ایک بڑا کارنامہ سرانجام دیا۔ خیال صاحب کے آٹھ شعری مجموعے ان کی زندگی میں شائع ہوئے ۔ جسارت صاحب نے اسے ’’کلیات خیال امروہوی‘‘ میں یکجا کردیا۔ ان آٹھ مجموعوں کی ترتیب کچھ یوں ہے۔
۱۔مقتل جاں (1967)، ۲۔ گبند بے در(1973)، ۳۔ لمحوں کی آنچ(1975)، ۴۔عصر بے چہرہ (1982)، ۵۔ خلیج طبقات(1983)، ۶۔ تلخاب(1988)، ۷۔ ملوکیت شکن(1996)، ۸۔ طلوع فردا(2005)
خیال صاحب دس دسمبر انیس سو تیس میں ضلع بٹیر حیدرآباد دکن بھارت میں پیدا ہوئے۔انیس سو بیالیس میں جامعہ حیدر آباد دکن سے فاضل علوم السنہ شرقیہ کا امتحان پاس کیا۔ انیس سو تینتالیس میں انگریزی کا پرچہ دے کر مدرسہ فرقانہ عثمانیہ ضلع بٹیر سے میٹرک کیا۔ انیس چوالیس میں حیدر آباد دکن ہی سے اردو فاضل کیا۔ انیس سو پینتالیس میں ایف اے اور انیس سو سنتالیس میں بی اے کیا۔ انیس سو انچاس میں ایم اے فارسی کیا ۔انیس سو اڑسٹھ میں ایران چلے گئے اور ’’عقائد مزدک‘‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا ۔ دو ہزار نو میں خیال صاحب کا انتقال ہوا ۔ اس وقت ان کی عمر اناسی برس کے قریب تھی۔
وہ فارسی ادب کے استاد تھے ۔ان کے حالات کبھی اچھے نہیں رہے ۔ وہ گورنمنٹ کالج لیہ سے ریٹائرڈ ہوئے اور بھٹو کی پانچ مرلہ اسکیم میں اپنا گھر تعمیر کرایا۔ اور یہ ریٹائرمنٹ کے بعد ممکن ہوا۔
گنبد بے در (انیس سو تہتر)کے دیباپچے میں ڈاکٹر خیال صاحب لکھتے ہیں :
’’شاعری کےبارے میرا نظریہ یہ ہے کہ اسے آفاقی حیثیت کا حامل ہونا چاہے ۔ شاعر کسی بھی ازم یا تحریک سے وابستہ رہ کر آفاقی شاعر نہیں کہلا سکتا۔ شاعر آفاقی تمدن کا جراح بھی ہے اور مرہم انداز بھی ۔ وہ ایک ایسا آئنہ ہے جس میں ہر ملت کے افراد اپنا عکس دیکھ سکتے ہیں۔
اس مجموعے سے چند اشعار
زوال ملت کس سے مخفی تھا؟
اس حادثے میں کئی لوگ بے خبر بھی ملے
جس شکل سے ہیں راہنما دست وگریباں
اس حشر میں تعمیر کی امید اٹھا رکھ
مزے کا تصور بھی ہے صحرائے وفا مین
اس دشت میں اڑتی ہے مگر خاک زیادہ
چند معروف شعراء کی رائے ۔
ـ’’خیال صاحب کی شاعری عام طور پر علم وفکر اور منطق کی شاعری ہے جسے وہ احساس اور جذبات سے مزین کرکے قاری کے دل کو لوٹ لیتے ہیں۔ زبان کے بارے میں وہ بہت محتاط ہیں اور اپنے اظہار میں لفظوں کا انتخاب اور دروبست کا خیال رکھتے ہیں۔‘‘ (ظہیر کاشمیری)
’’ڈاکٹر خیال امروہوی اپنی انفرادی انا اور پسند کے اس شدت سے طرف دار اور محافظ ہیں کہ اس ضمن میں کسی لائق اعتنا، اختتلاف یا دوستانہ مشورے کو لفٹ دینے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ‘‘(عدم )
’’خیال کے یہاں کہیں کہیں شدت احساس جب شدت اظہار کی انتہائی حدوں میں قدم رکھتی ہے تو ان کا فنی جمال متاثرہوتاہے۔ ‘‘(عاصی کرنالی)
عصر بے چہرہ (انیس سو بیاسی)میں رئیس امروہوی ڈاکٹر انور سدید ، رشید قیصرانی اور نسیم لیہ کی آراء درج ہیں۔
رئیس امروہوی لکھتے ہیں:
’’عصربے چہرہ ‘‘ان کا تازہ مجموعہ کلام ہے ۔ خیال کوشعر پہ جو گرفت اور معانی واسالیب کا جو عرفان حاصل ہے وہ اس مجموعے میں پوری تاب و توانائی سے نظر آتاہے۔ وہ اپنے کو ایک ایسے عصر اور عہد کے روبرو پاتے ہیں جس کے خدوخال مدہم اور نقش ونگار دھندلا چکے ہیں۔ ‘‘
چند اشعار:
چلیں گے بزم میں یوں اجرتوں کے پیمانے
کھنک میں ان کی نیا ساز گفتگو کو ہوگا
تاریخ اچھالے گی اس مرد جری کو
عظمت کا نشاں جس کے لئے ٹاٹ رہاہے
یک عمل ہوکے عمارت کا اٹھاؤجامہ
تاکہ صدیوں کی روایات کا انبار اٹھے
ڈاکٹر صاحب انقلابی نظریات کے شاعر تھے۔ وہ ترقی پسند تحریک سے متاثر نظر آتے ہیں ۔ لیکن وہ اپنا تعلق آفاقیت سے قائم رکھنا چاہتے ہیں تھے۔ اس سلئے وہ کسی خاص نظریے کا اقرار نہیں کرتے ۔ وہ لیہ میں رہے وہاں انہوں نے ادبی حلقے کو تقویت دی ۔ اچھا شعر کہنے والے شاگرد تیار کیے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ