محمد عامر خاکوانی
مولانا فضل الرحمن کے مارچ اور دھرنے کے حوالے سے ہر جگہ بات ہو رہی ہے۔ ٹاک شوز میں بھی یہی معاملہ زیربحث ہے۔ سیاست سے زیادہ دلچسپی نہ رکھنے والے احباب کو یقینا کوفت ہورہی ہوگی، مگر جب ایک اہم واقعہ ہونے لگتا ہے تو اس پر بحث ہونا فطری امر ہے۔ چند سوال ہیں، ان کے جواب ہر کوئی کھوج رہا ہے ۔معلومات، تجزیہ، قیاس، رائے …. ان سب کے امتزاج سے کام چلانا پڑے گا۔
مولانا احتجاجی مارچ کیوں کر رہے ہیں؟
یہ بڑا اہم اور بنیادی نوعیت کا سوال ہے کہ مولانا فضل الرحمن آخر کیوں اتنا جلدی آل آﺅٹ وار پر آ گئے ہیں۔ ایسا کیا ہوا کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جلتی آگ میں کودنے پر تل گئے ہیں؟دیکھا جائے تو نیب کے احتساب عمل کا ہدف پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور ان کے قریبی ساتھی تو نشانہ نہیں بنے۔مولانا البتہ الیکشن میں شکست کھا گئے ، کشمیر کمیٹی کی سربراہی سے ہاتھ دھونا پڑے ۔ یہ سب اپنی جگہ مگر کیا صرف اس بنیاد پر مولانا فضل الرحمن جیسا تجربہ کار، گھاگ ، گرم سرد چشیدہ سیاستدان اپنا سب کچھ داﺅ پر لگانے کو تیار ہوجائے گا؟ کیا شکست کا غصہ اس قدر ہے؟انا اتنی شدید مجروح ہوئی کہ احتیاط اور عاقبت اندیشی کے تمام تر تقاضے بھلا بیٹھے ہیں؟
اس سوال کاایک جواب یہ دیا جاتا ہے کہ مولانا فرسٹریشن کا شکار ہیں۔عرصے بعد وہ یوں غیر متعلق ہوئے ، ان سے برداشت نہیں ہوا اور خود کو لائم لائٹ میں لانے کے لئے یہ ایڈونچر کر ڈالا۔ یہ ایک نقطہ نظر تو ہے، مگرمجھے یہ اوورسمپلی فکیشن یعنی ضرورت سے زیادہ سادہ رائے لگتی ہے۔مولانا کے حامیوں کا ظاہر ہے اپنا نقطہ نظر ہے، مگر وہ بھی قائل کرنے والا نہیں۔ یہ درست کہ حکومت کی کارکردگی بری ہے،بیڈ گورننس کی وجہ سے عوام میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ اس بات پر مگر تنِ تنہا عوامی تحریک کون اٹھاتا ہے؟ وہ بھی حکومت کے پہلے سال میں؟اپوزیشن کی دونوں مرکزی جماعتیں ن لیگ اور پیپلزپارٹی اگر آل آﺅٹ وار پر نکل آئی ہوتیں، تب صورتحال مختلف تھی۔یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کے پی میں تحریک انصاف کی حکومت اچھا کام نہیں کر رہی، ان کی ناکامی کا فائدہ مولانا کی جماعت ہی کو جائے گا۔ سیاسی حکمت تو یہ بتاتی ہے کہ حکومت کو اچھی طرح ناکام ہو جانے دیا جائے تاکہ ان کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے ۔مولانااس آپشن کو استعمال کرنے کے بجائے عجلت میں حکومت گرانے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ آخر کیوں؟
بتایا جاتا ہے کہ مولانا نے چند ماہ قبل جب عوامی تحریک کا عندیہ دیا تو خود ان کی اپنی جماعت میں مخالفت کی گئی۔ مجلس شوریٰ بھی حق میں نہیں تھی۔ دو باتیں وہاں کہی گئیں۔ ایک تو یہ کہ پیپلزپارٹی، ن لیگ کی لڑائی ہم کیوں لڑیں ؟ دوسرا یہ کہ اس احتجاج کے نتیجے میں اگر سسٹم ڈی ریل ہوجائے، مارشل لا ءلگ جائے تو پھر اس سے سب کو نقصان پہنچے گا۔مولانا مگر اپنے ارادے پر قائم رہے۔ انہوں نے دانستہ ملین مارچ شروع کئے، مختلف شہروں میں جلسے کئے۔کارکنوں کو متحرک کر دیا،پارٹی بھی پھر مارچ پر تیار ہوگئی۔ایک اشارہ یہ بھی دیا جاتا ہے کہ دیگر اپوزیشن جماعتیں مولانا کو اس کے لئے اکسا رہی ہیں ۔ یہ بات ہوسکتی ہے، مگر ایسی صورت میں ان جماعتوں کو خود اس کا حصہ بننا چاہیے۔ وہ تو ڈری سہمی دور بیٹھی رسمی سپورٹ کا اعلان کر دیتی ہیں۔ مارچ کا حصہ بن کر خطرات کا سامنا کرنے کو تیار نہیں۔ اس لئے سوال اپنی جگہ قائم ہے۔ اس کا جواب ڈھونڈتے رہنا چاہیے۔ لگتا ہے کئی چیزیں اس کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔
دھرنے کے پیچھے کون ہے؟
یہ بھی اہم سوال ہے، انگریزی محاورے کے مطابق ملین ڈالرکا سوال۔ مولانا کا مارچ، دھرنا دراصل اس قدرنان پریکٹیکل اور قبل از وقت ہے کہ سوچنے سمجھنے والے لوگ یہ نکتہ اٹھا نے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ مولانا کوکسی خفیہ قوت کی طرف سے اشارہ ملا ہے۔ عمران خان نے اپنا مارچ اور دھرنا کیا تو یہی تاثر دیا کہ انہیں” اندر“ سے سپورٹ حاصل ہے۔ اسی لئے وہ امپائر کی انگلی اٹھنے کی بات بار بار کرتے تھے۔ انہیں اندازہ تھا کہ پاکستانی تاریخ میں حکومتیں صرف عوامی احتجاج پر نہیں تبدیل ہوتیں ۔ صرف وہی تحریکیں کامیاب ہوئی ہیں، جنہیں اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ حاصل تھی۔ اس سپورٹ حاصل ہونے کا تاثر دینے سے کئی چھوٹی موٹی قوتیں جیسے سرمایہ دار، تاجر وغیرہ بھی ساتھ مل جاتے ہیں ۔مولانااپنے آپ کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں، وہ خفیہ سپورٹ ملنے کا کھلا تاثر تو نہیں دے سکتے، مگر اس کی قطعی نفی بھی نہیں کرتے۔ان سے ملنے والے بعض لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ مولانا نے ”اندر “سے سپورٹ ہونے کا اشارہ کیا ہے ۔ظاہر ہے اس بات کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ بتایا جاتا ہے کہ مولانا نے اپنی جماعت کے کئی اہم لوگوں کو استفسار پر جواب دیا،” آپ لوگ اگر باہر نکلیں گے تو پھر سب ساتھ ہیں، گھر بیٹھے رہے تو کوئی بھی ساتھ نہیں ہوگا۔ “ اب اس مبہم جملے سے کوئی جو چاہے مطلب نکال لے۔ یہ عمومی اصول بھی ہوسکتا ہے اور کہیں سے مدد کا اشارہ بھی ۔ اس جملے سے مگر کچھ ثابت نہیں کر سکتے۔
مولانا کو یہ کریڈٹ تو بہرحال دینا چاہیے کہ اپنے کارڈز انہوں نے سینے کے ساتھ لگائے ہوئے ہیں اور اہم ترین پارٹی رہنماﺅں کو بھی کچھ زیادہ علم نہیں۔ میرے جیسا عام اخبارنویس پاور کاریڈورز سے دور رہنے میں عافیت سمجھتا ہے، مختلف باخبر صحافیوں سے البتہ معلوم کرنے کی کوشش کی جن کے اہم حلقوں میں رابطے ہیں۔سب کا کہنا تھا کہ مولانا کو کہیں سے خفیہ سپورٹ حاصل نہیں، ایسا ہر تاثر غلط ہے۔بتایا جاتا ہے کہ پہلی بار ہمارے سول اور غیر سویلین ادارے ایک ہی پیج پر ہیں اور قطعی طور پر ایسی صورتحال نہیں کہ کسی کو اکسا کر حکومت کو پریشان یا دھمکایا جائے۔ ابھی حال ہی میں ملک کے چوٹی کے کاروباری افراد کے ایک وفد نے عسکری قیادت سے ملاقات کی، اس میںانہیں واضح بتایا گیا کہ ہم حکومت کو سپورٹ کر رہے ہیں، آپ بھی کریں۔اس لئے یہ خفیہ سپورٹ والی تھیوری مشکوک ہی لگتی ہے۔ ایک صحافی دوست نے نئی سازشی تھیوری سنا دی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کہیں سے سپورٹ کا کچھ تاثر دیا بھی گیا تو ممکن ہے وہ ٹریپ ہو اور اس بہانے مولانا، دینی قوتوں اور مدارس کی طاقت کے غبارے سے ہوا نکالنا مقصود ہو۔ اس تھیوری کو چلانے والے مولوی خادم رضوی کی مثال دیتے ہیں۔ تھیوری دلچسپ ہے، خامی یہ کہ مولانا کو خادم رضوی نہیں تصور کرنا چاہیے۔
کیا دھرنا ہونے دیا جائے گا؟
اس سوال کے دو جواب موجود ہیں۔اس وقت تک دونوں آپشنز پر غور جاری ہے،رائے منقسم ہے۔ ایک حکومتی حلقہ مارچ کو روکنے کے حق میں نہیں کہ انہیں آ جانے دیا جائے اور پھر اپنا جلسہ کر کے یہ چلے جائیں۔ دھرنا دیں گے تو آخر کب تک ؟اس حلقے کے خیال میں وہی کیا جائے جو میاں نواز شریف نے کیا تھا، آخری تجزیے میں جو درست نکلا۔ دوسرا حلقہ البتہ مارچ ہر حال میں روک دینے کے حق میں ہے۔ مولانا کو گرفتار کر لیا جائے، دیگر رہنما بھی پکڑے جائیں، مارچ روکا جائے، کارکن مختلف جگہوں پراحتجاجی دھرنے دیں اور پھر خیر سے جیل کی ہوا کھائیں ۔ یوں دھرنا روک دیا جائے ۔اس کا نقصان بہرحال یہ ضرور ہے کہ ملک بھر میں احتجاجی ماحول بن جائے گا۔ایک بات طے ہے کہ فیصلہ جو بھی ہو، وہ مشاورت سے ہوگا اور ایک ہی ”پیج “سے کیا جائے گا۔
کیا مارچ اور دھرنا ہو پائے گا؟
یہ بھی ایسا سوال ہے ، جس کا حتمی جواب تو آخری دنوں میں ملے گا۔ بتایا جا رہا ہے کہ جے یوآئی نے خیبر پختون خوا اور بلوچستان سے اپنے اہم کارکنوں، ضلعی سطح کے رہنماﺅں کو مارچ سے کئی دن پہلے خاموشی سے پنڈی، اسلام آباد اور لاہور وغیرہ پہنچانے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ سوچ یہ ہے کہ حکومت ستائیس کے بعد چلنے والے قافلے روک لے گی تو پہلے سے آٹھ دس ہزار کے قریب لوگ منزل مقصود تک پہنچائیں جائیں۔ وہ مقامی مدارس یا ہم خیال لوگوں کے گھروں وغیرہ میں رہ لیں۔اس کے لئے باقاعدہ انتظامات کئے جا رہے ہیں۔مقامی سطح پر لیگی کارکنوں،ا جیالوں کو کہا جارہا ہے کہ آپ پارٹی قیادت کے فیصلے کے تحت مارچ میں شامل نہیں ہوسکتے تو کوئی بات نہیں، آپ جہاں جہاں ہمیں سہولت دے سکتے ہیں، وہ تو دیں۔ مولانا نے اپنا مارچ سندھ سے دانستہ شروع کیا۔ دووجوہات ہیں۔ ایک تو اندرون سندھ ان کا اثرورسوخ ہے، نشستیں نہیں ملتیں، مگر ووٹ بینک موجود ہے۔ دوسرا صوبائی حکومت مارچ کو روکے گی نہیں۔ صادق آباد یعنی پنجاب کی سرحد تک آرام سے آ جائیں گے۔
دوسری طرف یہ تمام انتظامات حکومتی اداروں کی نظر میں بھی ہیں۔ ظاہر ہے پولیس مختلف مدارس کی نگرانی کر رہی ہوگی۔ مولانا کے کارکن جہاں کہیں رہیں گے، وہ پولیس سے شائد اوجھل نہ رہ سکیں۔حکومت اپنے انداز میں مولانا کے تمام اقدامات کو کاﺅنٹر کرنے کی کوشش کرے گی۔ یہی تو اصل چیلنج ہوتا ہے کہ کس نے کتنی مہارت اور عمدگی سے منصوبہ بندی کی اور اپنے مخالف کے منصوبوں کو ناکام بنایا۔ اس مارچ کے حوالے سے بھی بعض حتمی جواب آخری مرحلے پر مل پائیں گے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر