طاہر محمود اعوان
فضل الرحمان مارچ کے لیے بھی کنٹینر تیار ۔ بارہ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ۔ کچن اور لائٹس کا بھی انتظام ۔۔
کنٹینر احتجاج کے موجد ڈاکٹر طاہر القادری ہیں جنھیں ہر جانب سے کنٹینر کے طعنے دئیے گیے لیکن وقت نے دیکھا کہ ان کے بعد ہر سیاسی احتجاج کے لیے کنٹینر کا استعمال وقت کی ضرورت بن گیا ۔۔
فضل الرحمان کا احتجاج کامیاب ہوتا ہے یا نہیں لیکن الیکشن میں انکا پتا صاف ہونے کے بعد اب ان کی سٹریٹ پاور کا بھی پتا چل جائے گا ۔
یہ وہی فضل الرحمان ہیں جو پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے دور میں ہر احتجاج کو جمہوریت دشمنی اور فساد قرار دیتے رہے تھے ۔ اب خان حکومت میں پارلیمنٹ سے باہر ہونے کے باعث موصوف ایک سال بھی برداشت نا کرسکے اور منتخب جمہوری حکومت کے خلاف کمر کس چکے ہیں
جب تک موصوف خود پارلیمنٹ میں تھے تو ہر مسئلے کا حل پارلیمنٹ کو قرار دیتے تھے ۔اب خود باہر ہیں تو غیر منتخب ہونے کے باوجود منتخب حکومت اور پارلیمنٹ کیخلاف سازش پر اتر آئے ہیں۔۔
اس سے قبل گزشتہ ادوار میں جو بھی جماعت یا گروہ احتجاج کے لیے نکلا تو کہا جاتا رہا کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر نکلے ہیں ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ فضل الرحمان کس کے اشارے پر منتخب حکومت کو ہٹانے نکلے ہیں ۔۔
اقوام متحدہ میں وزیر اعظم کی ناموس رسالت کے حوالے سے موثر تقریر کے بعد مولانا کا مذہبی کارڈ تقریبا فیل ہوچکا ہے اس لیے اب وہ کشمیر کا نام بھی لینے لگے ہیں اور اپنے مارچ کو کشمیرسے بھی منسوب کر رہے ہیں ۔۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے برعکس مولانا صاحب خان حکومت کے بغض و عناد میں کچھ جلد بازی کے مرتکب ہورہے ہیں ۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے قائدین فی الحال مقدمات میں پھنسے ہوئے ہیں اور احتجاج کے حوالے سے موثر تیاری نہیں رکھتے ۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ خراب کارکردگی کے باوجود فی الحال عوام کی امیدیں موجود حکومت سے پوری طرح نہیں ٹوٹیں ۔اس لیے سردست کوئئ بھی احتجاج اتنا موثر ثابت نہیں ہوگا ۔اس کے لیے کچھ عرصہ انتظار کیا جانا چاہیے تاکہ عوامی جذبات پوری طرح حکومت کیخلاف ہوجائیں لیکن باوجود کوشش کے دونوں بڑی جماعتیں اس نکتے پر مولانا کو قائل کرنے میں ناکام رہی ہیں ۔
دیکھا جائے تو اپوزیشن نے سینیٹ الیکشن کا ایڈونچر کر کے کافی سبکی اٹھا لی ہے اور کرپشن الزامات کے تحت مقدمات کے بوجھ تلے تبی سابق حکمران جماعتوں کے پاس اب کھونے کو کچھ زیادہ نہیں ہے ۔مولانا تو بہرصورت مدارس کا ایک بڑا جال رکھتے ہیں لیکن دیگر جماعتیں انکے جال میں آکر مزید کچھ کھونے کی متحمل نہیں ہوسکتیں ۔ تاہم انکی واحد امید اور سہارا بھی اب مولانا ہی رہ گئے ہیں ۔۔ اور وہ ان کی ناراضگی بھی افیورڈ نہیں کرسکتے ۔۔ اس احتجاج کے حوالے سے یہی وہ چوں چوں کا مربہ ہے جو اس کی ناکامی کی بڑی وجہ بھی بن سکتا ہے۔ ۔کہا جا سکتا ہے کہ سابق ادوار میں اقتدار کا حصہ رہنے والے تمام سٹیک ہولڈرز ایک دوسرے کو بچانے کے لیے ساتھ تو چلنا چاہتے ہیں لیکن اندریں حالات ایک دوسرے پر اعتماد بھی نہیں کر پا رہے ہیں ۔ اپوزیشن کی اس کمزوری کا فایدہ یقیناً موجودہ حکومت کو ہوگا ۔
اس سارے معاملے میں میڈیا مینجمنٹ بہت اہم ہے ۔ مارچ کی تیاری کے لیے مولانا نے جو جلسے کیے ان میں ناموس رسالت کے مسئلے کو لیکر لوگوں کو اکھٹا کیا جاتا رہا ہے، ان جلسوں میں مذہبی رنگ نمایاں تھا اسی وجہ سے میڈیا میں کوئی خاص پذیرائی نا مل سکی ۔اب بھی اس مارچ کے اہداف اور مقاصد واضح نہیں ہیں ۔ کبھی مولانا اسے تحفظ ختم نبوت سے منسوب کرتے ہیں اور کبھی کشمیر بچائو سے لیکن درحقیقت یہ ایک خالصتاً سیاسی ایڈونچر ہے جس کی کامیابی کا انحصار بڑی حد تک کامیاب میڈیا سٹریٹجی پر ہے ۔۔
ن لیگ نے اپنے دور میں طاہر القادری اور عمران خان کے احتجاج کو کائونٹر کرنے کے لیے بہت مؤثر میڈیا سٹریٹجی اپنائی تھی اور اسی کےبل بوتے پر نواز شریف بہت بڑے دبائو کےباوجود بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
موجودہ حکومت کی اس حوالے سے پالیسی بہت کمزور اور غیر واضح ہے ۔بعض اوقات وزرا کی جانب سے اپوزیشن کو دیا گیا غیر ضروری ردعمل بھی اس کے بیانئے کو چار چاند لگا دیتا ہے ۔حالت یہ ہے کہ اپوزیشن کے کسی ایک رکن کے بیان پر درجن درجن ترجمان ردعمل دے رہے ہوتے ہیں اس سے وہ بیان میڈیا میں ہائی لائٹ ہوجاتا ہے ۔یہی حال "مولانا مارچ” کے معاملے میں بھی ہورہا ہے ۔ مولانا سے ذیادہ اس مارچ کی مارکیٹنگ خود حکومتی شخصیات کر رہی ہیں ۔ جس پر مولانا کو انکا شکر گزار ہونا چاہیے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ