عبدالرؤف
عمران خان کی تقریر کی جو پذیرائی پاکستان کی یوتھ، اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا کر رہا ہے اسے دیکھ کر یہی خواہش دل میں آتی ہے کہ کاش کہ انٹرنیشنل میڈیا اور پلیٹ فارمز پر اس تقریر کو اس کی 1فیصد بھی کوریج مل جاتی تو کشمیریوں کا کیس موثر طور پر پیش کرنے کا حکومتی دعویٰ سچ دکھائی دیتا۔ لیکن وہ تقریر انٹرنیشنل میڈیا پر صرف انہی 50 منٹ تک چلی جب تک جنرل اسمبلی کا مائیک ہمارے خان صاحب کے سپرد تھا۔
اس پر متوقع بحث اور کشمیر کا کیس عالمی میڈیا میں ہماری توقعات کے مطابق جگہ نہیں بنا سکا اور میری ناقص رائے میں اسکی دو وجوہات ہیں ۔۔۔ پہلی تو یہ کہ ہمارا گھر صاف ہے نہ ہمارا کردار مثالی ہے ۔۔۔ گلے کاٹتے ظالمان سے ہم حکومتی ، انتظامی اور انفرادی طور پر کسی نہ کسی لیول اور طرز سے ہمدرد ی جتاتے ہیں تو پھر کیسے آر ایس ایس کے گھناونے کردار سے دنیا کو روشناس کروا سکتے ہیں ؟
یمن کے بچوں کے حق میں آنے والی قرارداد کی مخالفت کر کے کشمیر کے بچوں کی دہائی کیسے متاثرکن ہو سکتی ہے؟
مذہبی اور صوبائی اقلیتوں کی حالت پاکستان میں کسی بھی لحاظ سے مثالی نہیں تو آپ کیسے دنیا کو انڈیا کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی طرف مبذول کروا سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔؟
جب ہمارا وزیراعظم انڈیا کی سیکولر شناخت کے کھو جانے کا اندیشہ ظاہر کر رہا تھا تو ٹیلی ویژن چینلز پر اسی وزیراعظم کی مشیر اطلاعات این جی اوز کو غیر ملکی ایجنٹس اور سوشل میڈیا پر اسی وزیراعظم ہی کی پارٹی کے بہت سے کارکنان سیکولرازم اور لبرل ازم کو ملک کی نظریاتی بنیادوں سےغداری سے تعبیر کر رہے تھے۔
اکیسویں صدی کی جدید دنیا بین الاقوامی تعلقات میں 2 چیزوں کی قدر کر رہی ہے، آپ سے حاصل ہونے والے ممکنہ فوائد [اس میں ملٹری طاقت سے لیکر بزنس اور انسانی وسائل سے لیکر مادی وسائل سب شامل ہیں] اور نمبر 2 آپ کا بحثیت ملک ایک کردار۔۔۔۔
امریکہ برطانیہ سعودی عرب اور چائنا نے دولت اور طاقت سے خود کو منوایا ہے تو انڈیا انسانی وسائل اور ایک بڑی منڈی کو کیش کروا رہا ہے جب کہ یورپ کے چھوٹے چھوٹے سے ممالک انسانی حقوق کے حوالے سے مثالی کردار اپنا کر دنیا میں اپنی اہمیت تسلیم کروا رہے ہیں۔
اگر آپ یمن میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر منظور کی جانے والی مذمتی قرارداد کے حق میں اور مخالفت میں ووٹ دینے والے ممالک کو دیکھیں تو آپ کو کردار کے حوالے سے یہ لکیر واضح نظر آئے گی۔ اور بدقسمتی سے ہم ایسی کسی بھی فہرست میں نہیں آتے کہ نہ تو انسانی حقوق کے حوالے سے ہمارا کردار مثالی ہے اور نہ ہی ہم بیرونی دنیا کے لیئے مفید ثابت ہو رہے ہیں ۔۔۔۔۔
شاید اسی لئے ہمارے وزیراعظم کی ایک جینوئن دہائی کو بھی نہ اقوام متحدہ میں پذیرائی ملی ہے اور نہ ہی انٹرنیشنل میڈیا نے اس کو نمایاں کیا ہے کہ اس سے بین الاقوامی طور پر شعور بیدار ہوتا اور شاید عراق جنگ کے خلاف نکلنے والی تاریخی ریلیوں کی طرح کشمیریوں کے حق میں بھی عوام باہر آتے تو حکومتوں کو اپنا موقف کشمیریوں کے حق میں تبدیل کرنا ہی پڑتا۔ لیکن یہاں پر کشمیریوں کی حالاتِ زار کو اور انڈیا کی طرف سے ان کے بنیادی حقوق سلب کرنے کی نیوز کو ایک طرف رکھتے ہوئے 90 فیصد سے زیادہ میڈیا نے ہمارے وزیراعظم کی طرف سے ایٹمی حملے کی دھمکی کو اس خبر کی بنیاد بنایا۔
دوسری غلط فہمی یا خوش فہمی جو آپ کو پاکستانی میڈیا بشمول سوشل میڈیا پر کثرت سے گردش کرتی نظر آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ ” کسی لیڈر نے کشمیر اور اسلام کا کیس عالمی لیول پر پہلی بار پیش کیا ہے؟
"، تاریخ اور حالاتِ حاضرہ سے تھوڑی سی وابستگی رکھنے والے لوگ بھی جانتے ہیں کہ کشمیر کے مسئلے پر آج سے 54 سال پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے جو تقریر کی تھی وہ زیادہ مدلل اور پر اعتماد تقریر تھی اور وزیرِ خارجہ ہونے کے باوجود ان کی بات کو پذیرائی بھی کہیں زیادہ ملی تھی کہ ہوم ورک مکمل تھا۔
عرب ریاستوں اور مغربی ممالک سے موقف کی تائید قبل از تقریر لے لی گئی تھی مگر اب جب کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے مکمل طور پر مدغم کرنے کی کوشش کی ہے تو دنیا کو آگاہ کرنے اور سپورٹ لینے کے لئے ہماری حکومت کی سفارتی کوششیں نہ ہونے کے برابر تھیں ۔
کشمیر پر مدلل تقریروں کی بات کی جائے تو بے نظیر بھٹو نے جو تقریر 1996 میں کی تو وہ بھی حق گوئی پر مبنی کافی پر اثر تقریر رہی کہ بھارت کو عالمی سطح پر کافی تنقید کا نشانہ بننا پڑا اور صفائیاں دینی پڑیں۔
رہی بات اسلاموفوبیا کی ، تو یورپی پارلیمنٹ میں اردنی شاہ عبداللہ دوئم کی اس تقریر سے بہتر شاید اسلام کا کیس کوئی نہیں رکھ سکتا ۔۔۔ عمران خان کی تقریر عمدہ اور کشمیر کے حوالے سے برمحل ہے مگر اسے اس قسم کی پہلی کاوش قرار دینا تاریخ کے ساتھ زیادتی ہو گی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ