حسن مرتضی
حسن مرتضی کا تعلق ڈیرہ غازی خان کی تحصیل کوٹ چھٹہ کے قدیمی قصبہ مانہ احمدانی سے ہے، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں سول انجینئرنگ کے طالب علم ہیں
مذہبی شدت پسندی اور سماج کی بوسیدہ روایات کی زنجیر پہنے عورت آخر کب مکمل انسان تسلیم کی جائے گی؟ مذہب کا چورن بیچنے والے طبقے سے اس کی امید ہی فضول ہے جنھوں نے پہلے ہی یہ اس بات پر یقین کرلیا ہے کہ عورت مرد کی پسلی سے وجود میں آئی اس لیے پسلی کی طرح ٹیرھی ہے. فتنہ ہے اور ایسا بچھو ہے جس کا ڈنگ بھی مزہ دیتا ہے. مخصوص بائیلوجویکل مسائل کی وجہ سے اسے ناپاک اور کمتر قرار دیا جاتا ہے.
مذہب کے نام پر استحصال کا شکار اور جاگیردارانہ نظام کے ہاتھوں مفلوج معاشرہ عورت کو ایک پراپرٹی سمجھتا ہے. جس کے کوئی حقوق نہیں اور اس کا وارث بھی مرد ہے محافظ بھی مرد اور منصف بھی مرد.
دوسری طرف جدید لبرل سرمایہ دارانہ نظام نے بھی عورت کی آزادی کی بات تو کی مگر نتیجہ مختلف نا نکلا. آزادی کے نام عورت کی نمائش کی گئی اور حقوق کے نام پر ایسی ملازمتیں فراہم کی گئیں جہاں عورت کو استعمال کرکے سرمایہ سمیٹا گیا. جدت پسندی کے نام پر مغرب میں قائم پورن انڈسٹری اس کا واضح ثبوت ہے جہاں قدم رکھنے کے بعد اس دلدل سے نکلنا کتنا مشکل ہے اس کا جواب سابقہ پورن ایکٹریس میا خلیفہ کے انٹرویو میں موجود ہے جس میں اس نے تقریباً روتے مغرب کے آزاد سماج اور انڈسٹری کے استحصالی رویے کو بے نقاب کیا.
وادی سندھ کی خوبصورت اور کالونیل ازم کے جبر کا شکار تہذیب اس بات کی گواہ ہے کہ یہاں ایک سیکولر معاشرہ ہوا کرتا تھا. عرب، ایران، افغان اور پھر بلوچ کی آمد سے اس تہذیب پر کافی اثرات مرتب ہوئے. لفظ "بلوچکی” کے نام پر آج بھی عورت کو کبھی کارو کاری قرار دے کر قتل کیا جاتا ہے یا پھر اپنی "ناک” بچانے کےلیے علاقہ بدر کرکے دور کہیں قبائل میں بیچ دیا جاتا ہے.
اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ ابھی جن علاقوں میں یہ مکروہ فعل جاری ہیں وہاں ریاست کی "تعلیم” نہیں پہنچی. لیکن کیا جائے ہمارے ڈگری ہولڈرز "پڑھے لکھے” لوگوں کا. جہاں سے کسی لڑکی کا گزر ہو تو پیچھے سے اس کا ایکسرے کیا جاتا ہے اور چسکے لے کر گفتگو کی جاتی ہے. ایک طرف تعلق بنانے کی اتنی جلدی اور دوسری طرف دماغ میں ایک ہی نظریہ کہ شادی تو خاندان کی وہ سب سے شریف لڑکی سے کرنی ہے یہ تو ٹائم پاس ہے. جو میرے ساتھ پھنس گئی وہ تو کسی کے ساتھ بھی سیٹ ہوسکتی ہے.
معروف سرائیکی شاعر دانشور ڈاکٹر اشو لال فقیر فرماتے ہیں افسوس کے ریاست نے اچھے انجینئر اچھے کلرک اچھے ڈاکٹر تو پیدا کرلیے لیکن اچھے انسان نا بنا سکی کیا ریاست کو اچھے انسانوں کی ضرورت نہیں؟
ہمارے اپنے اندر بھی شاید سماج کا صدیوں سے قائم عورت کا نظریہ کہیں نا کہیں موجود ہے. شاید ہمارے خون میں یہ زہر سرایت کرچکا ہے. ترقی پسند سوچ اور نظریات سے دماغ کو بھرنے کے بعد بھی کہیں نا کہیں وہ چھوٹی سی سوچ ضرور ابھرتی ہے جب کبھی کوئی خاتون ہمیں دیکھ کر مسکرائے تو ہم بھی اپنے اندر وہی خیالی پلاؤ پکاتے ہیں جو صدیوں سے سماج نے اور اب ریاست نے ہمارے اندر بھردیا ہے. لیکن شاید ہم دوسرے لوگوں سے اس لیے بہتر ہوں کہ ان خیالات کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیتے یا پھر اپنے نظریات سے ان کا مقابلہ کرکے ان کو شکست دیتے ہیں. بہر حال کوئی اسے سائیکالوجیکل فیکٹ کہے یا جو بھی اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے اور شاید اس کےلیے بہت لمبا عرصہ درکار ہو اور یہ تب تک ممکن نہیں جب تک ہم عورت کو کوئی اور مخلوق سمجھ کر لیڈیز پورشن الگ کرتے رہیں گے.
ریاست کو سمجھنا ہوگا کہ فقط ڈگری سے انسان تعلیم یافتہ نہیں بن جاتا تعلیم یافتہ ہونے کےلیے انسان کو تہذیب یافتہ کرنا ہوگا پھر کہیں جاکر وہ مقامیت کو سمجھے گا ایک خوبصورت انسان باہر آئے گا جو ناصرف عورت کو انسان سمجھے گا بلکہ اس دھرتی سے جڑے دریاؤں، درختوں، پرندوں، جانوروں اور تاریخ سے بھی محبت کرے گا.
یہ عمل شروع بھی ہو تو شاید مائیکرو آرگنزم سے انسان کے ارتقا جتنا طویل سفر ہوگا. معاشرے اور ریاستوں کو سمجھنا ہوگا کہ اگر عورت خود اٹھ کھڑی ہوئی تو ریاست اور معاشرے انتقام کی آگ میں تباہ ہوکر رہ جائیں گے. اس آتش فشاں کے پھٹنے سے پہلے ہی معاشرہ، مذاہب اور ریاست عورت کو برابری کے حقوق دینے کے ساتھ ساتھ معاشرے کو تہذیبی بنیادوں پر ترتیب دے.
مگر یہاں الٹی گنگا بہتی ہے. سندھ وادی کی تہذیب کا سب سے سیکولر تہوار شادی اور جھمر ہے. مگر کالونیل ازم نے یہاں بھی وار کیا. اب بہت سی جگہوں پر مذہب کے نام پر روایتی جھمر ڈھول بند ہوچکا ہے. عربی طرز کے دعوت ولیمہ نے ان کی جگہ لے لی ہے. اور بیشتر جگہوں پر غیرت نے اس روایت پر وار کیا اور کئی لوگ کہتے پائے گئے کہ اب ہم جھمر کے نام پر اپنی عورت نچوائیں.
ہم تو اپنے لاشعور میں عورت کو انسان ماننے سے انکار کرچکے ہیں لیکن آنے والے وقتوں میں اگر یہ دنیا تہذیب یافتہ انسانوں پر مشتمل ہوئی تو وہ ہمارے دور کے انسان کو انسان ماننے سے انکار کردے گی.
نوٹ: ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر