چین کا قرضوں کی عدم ادائیگی پر کینیا کی مرکزی بندرگاہ پر قبضہ کرلیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نظامِ زر میں دوستیاں نہیں مفادات مقدم ہوتے ہیں۔۔۔۔ مگر یہ نظامِ زر ھی نہیں رہنے والا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے وہ جعلی اور حکمران جو چین کی سرمایہ کے منصوبے "سی پیک ” کو ملکی تقدیر کے سنورنے کی نوید بنا کے پیش کر رھے ہیں۔ اگلے کچھ سالوں میں (پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب نہ ھو سکنے کی وجہ سے) پاکستان کی عوام اسی طرح کے قبضہ ہونیکی خبریں گوادر کی بندرگاہ سمیت بلوچستان کے ان سونے، چاندی، تیل اور تانبے کے ذخائر کے بارے پڑھ رھے ھونگے کہ جن پر محض اپنا حق جتلانے پر بلوچستان کے غریب، مظلوم محنت کشوں پر جبر و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔۔۔۔ کیونکہ سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام میں دوستیاں نہیں ہوتیں بلکہ مفادات ھوتے ہیں۔۔۔۔ اور اس نظام میں کوئی غریب فرد ھو، قبیلہ ھو یا ملک اس کو قرض دینے کے بدلے تن کے لباس، گھر کے برتن اور سارے وسائل گروی رکھ کے دئیے جاتے ہیں۔ دوسری طرف ان قرضوں کی ادائیگیوں کا میکنزم/ طریقہ کار ایسا ھوتا ھے کہ ایسے قرضے کئی کئی بار کی ادائیگیوں کے بعد بھی کئی کئی گنا اضافوں کیساتھ اسی طرح واجب الادا رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔
اس پر المیہ یہ ھے کہ قرضوں کے ان معاھدوں کی رقم حکمران بالادست طبقہ کی تجوریاں بھرنے، ان کے وسائل اور کاروبار میں اضافے کا سبب بنتے ہیں جبکہ ان قرضوں کی وصولیوں کا خراج عوام کی اکھڑتی سانسوں سے لیا جاتا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پر مستزاد یہ کہ ان قرضوں کو وطن کے تقدس کے غلاف میں لپیٹ کر، وطن کی ایسی ترقی کے نام پر حاصل کیا جاتا ھے کہ جس میں عوام جو ملک کے اصل مالک ھوتے ہیں وہ سر چھپانے کو چھت، بدن ڈھانپنے کو لباس، بھوک مٹانے کو خوراک، لفظ پڑھ سکنے کو کتاب اور جی سکنے کو علاج جیسی بنیادی ضرورتوں کیلئے سسکتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر عوام جب اپنی ان محرومیوں کا محض تذکرہ بھی کرتے ہیں تو غداری و ملک دشمنی کے داغ ان کی پیشانی پہ سجا دئیے جاتے ہیں۔۔۔۔ مگر جیسا کہ فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ
یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِ راہ سیاھی ملی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ھم سرِ بزمِ یار چلے گئے
یعنی یہ یارِ طرح دار (عوام ) جب اپنے بارے ملک دشمنی، غداری، شر پسندی، جھگڑالو اور فسادی ہونیکے کے طعنوں کو میڈیائی چاپلوسی کی پھیلائی گئی دانش کی خبروں اور تجزیوں کے ذریعہ اپنے گھروں کے کمروں میں ، گھر سے باہر محلوں، چوکوں اور بازاروں میں، اپنے روز مرہ کے جان بچانے کیلئے ادا کرنیوالے یعنی کام کاج کی جگہوں کھیتوں کھلیانوں اور فیکٹریوں کارخانوں سنتے ہیں تو عوام کو اس حکمران بالادست طبقے اور حکمرانوں سے تعفن اور گِھن آنا شروع ھو جاتی ھے جن کو انہوں نے اب تک اپنا مسیحا سمجھا ہوتا ھے۔۔۔۔۔۔ تب عوام کے ذہن و شعور سے وہ جالے اترنا شروع ھوتے ہیں جن کو خباثت کی ہنرمندی سے سرمائے کی مکڑیوں نے سالوں سے بُن رکھا ھوتا ھے۔۔۔۔۔
بس پھر یوں ہوتا ھے ادھر ذہنوں سے جالے اترتے ہیں ادھر غلامی سے نجات کے جذبے دماغوں میں ھمکتے ہیں اور بالادست طبقے سے نفرت عوام کے لہو کو گرمانا شروع کردیتی ھے۔ ایسے میں رنگ و نسل، ذات پات اور وطن و قوم کی حکمرانہ تقسیم کی زنجیریں پگھلنے لگتی ہیں۔۔۔۔۔
مایوسی و نامرادی کے بادل چھٹتے ہیں۔ کیا کریں؟ کچھ نہیں ہونا؟ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ جیسے روزمرہ کے فقرے مرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ بکھرے اور پچھڑے ہوئے عوام منظم ہونے لگتے ہیں۔ نوجوانوں کی ٹولیاں جا بجا رقص کرتے نظر آتی ہیں، ان کی تالیاں ایک ساتھ بجتی ہیں اور ان کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں تو ان کی امنگیں انگڑائیاں لینے لگتی ہیں اور انقلاب انقلاب سوشلسٹ انقلاب کے نعرے گونجتے ہیں۔۔۔۔۔
ایسے منظر نسلِ انسانی کی تاریخ اس جہاں میں پہلے بھی کئی بار دیکھ چکی ھے۔۔۔۔۔ اور ایسے مناظر مستقبلِ قریب میں بھی سجنے میں اب کوئی دیر نہیں رھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ بقول ساحر لدھیانوی
سعیِ بقائے شوکتِ اسکندری کی خیر
ماحولِ خشت بار میں شیشہ گری کی خیر
فاقہ کشوں کے خون میں ھے جوشِ انتقام
سرمایہ کے فریبِ جہاں پروری کی خیر
احساس بڑھ رہا ھے حقوقِ حیات کا
پیدائشی حقوقِ ستم پروری کی خیر
صحنِ جہاں میں رقص کناں ہیں تباہیاں
آقائے ہست و بود کی صنعت گری کی خیر
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر