عمران خان کو آج جتنی ضرورت اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف تقریریں کرنے کی ہے اس سے کہیں زیادہ اس بات کی ہے کہ وہ اپنی جماعت کو متحد اور اپنی قیادت پر متفق رکھے۔
کیا پتہ نئی متوقع سیاسی صف بندیوں کی صورت میں جنہیں وہ اپنا سخت مخالف گردانتا ہے وہ تو اس کی مدد کو تیار ہو جائیں اس کی اپنی جماعت اسے دھوکہ دے جائے۔
حکومت کی تمام اتحادی جماعتیں بشمول ق لیگ موجودہ سیاسی حالات میں ان قوتوں جنہوں نے انہیں پی ٹی آئی کو حکومت بنانے میں مدد دینے پر مجبور کیا تھا کو اب یہ باور کرانے میں کسی حد تک کامیاب ہو گئیں ہیں کہ امور مملکت چلانا عمران خان اور اس کے ہمنواؤں کا کام نہیں ہے اس لئے نئی سیاسی صف بندیاں ہونے دی جائیں ۔
ق لیگ پنجاب کو ہتھیانے کا سوچ رہی ہے اس کے لئے وہ ن لیگ سے ہاتھ بھی ملانے کو تیار ہے مرکز میں عمران خان کے متبادل کے طور پر ملتان کا مخدوم تو ویسے ہی چوبیس گھنٹے دستیاب ہے اس کے ساتھ ساتھ اسد عمر، میاں محمد سومرو کے نام بھی گردش کر رہے ہیں۔
ملتانی مخدوم اپنی تمام عمر کی وفاؤں کا صلہ مانگتا ہے یہی وجہ ہے وہ حج پر جانے سے پہلے چوہدری سرور اور جہانگیر ترین کے ساتھ اپنے تمام اختلافات کو دفن کرنے کا اعلان کر کے گیا تھا۔
پیپلز پارٹی نے ملتانی مخدوم کو تھپکی دے رکھی ہے۔ مخدوم کا سب سے بڑا مخالف عمران خان ہے اور پھر ن لیگ۔ اگر کپتان کو اچھا خاصا سبق سکھانا مقصود ہوا تو مخدوم کی شاید لاٹری نکل آئے ورنہ مخدوم کے ساتھ ‘گھر دا پیر، چلھ دا وٹا’ والا کام ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔
بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ وفاق اور پنجاب میں جو سیٹ اپ بھی لایا جائے گا اس کو ن لیگ کی مشاورت کے ساتھ لایا جائے گا۔ چوہدریوں نے نواز شریف کو باہر بھجوانے والا کیس بڑی دل جمعی سے لڑا اس لئے چھوٹے اور بڑے میاں صاحب ان کے کسی حد تک بار احسان ہونا چاہیے جبکہ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کو اسلام آباد سے خوش اسلوبی کے ساتھ واپس بھیج کر ایسٹبلشمنٹ کو بھی ایک بہت بڑی آزمائش سے سے بچا لیا ہے ۔
اس لئے ان کی یہ خواہش ہو سکتی ہے کہ پنجاب عثمان بزدار سے لے کر ان کو دے دیا جائے۔ وزارت عظمیٰ کے لئے شہباز شریف کی خواہش ملتانی مخدوم سے کسی طور کم نہیں ہے بس وڈے پئی جان مان جائیں راولپنڈی والے تو شہباز شریف کی صلاحیتوں کے پہلے سے ہی معترف ہیں۔
اس ساری جوڑ توڑ میں پی ٹی آئی میں موجود کچھ خاص لوگوں کو بھی کچھ نہ کچھ مل جائے گا جو سب سے زیادہ خسارے میں رہے گا وہ کپتان ہو گا خسارے کو کم سے کم رکھنے کے لیے کپتان کو بہت محنت کرنی پڑے گی تاکہ کم از کم آدھے لوگ تو عمران خان کا کسی بھی صورت میں ساتھ نہ چھوڑنے کا اعلان کریں اور پی ٹی آئی (عمران خان گروپ) میں رہیں جس کے امکانات بہت کم ہیں۔
اس لئے کپتان کو چاہیے کہ سیاسی مخالفین کے حوالے سے سوچ سمجھ کر بات کرے اور اپنی پارٹی کو اپنی قیادت میں متحد رکھنے کی کوشش کرے شاید قسمت اس پر مہربان ہو جائے اور اسے بھی کسی حد تک ایک سیاسی قوت مانا جائے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر