پاکستان کا کوئی بھی صحافی جو کبھی کراچی، کوئٹہ یا اسلام آباد پریس کلب سے گزرا ہے وہ جانتا ہے کہ ماہ رنگ اور سمی بچپن ہی سے احتجاجی کیمپوں میں بیٹھی ہیں، ہماری آنکھوں کے سامنے جوان ہوئی ہیں اور لیڈر بنی ہیں۔ اب اپنے پیارے ہلاک اور گمشدہ بھائیوں کے لیے آواز اٹھانے اسلام آباد پہنچی ہیں، تو پولیس والے ان سے پوچھتے ہیں کہ تمھارے مرد کہاں ہیں؟ کچھ مار دیے، باقی غائب کر دیے، ایک کو وزیراعظم کی خوابگاہ میں بند کر دیا یا اس نے اندر سے کنڈی لگا لی۔
محمد حنیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چونکہ ہمارے نگران وزیراعظم کے بارے میں افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں کہ انھیں کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے تو انھوں نے یقیناً طالب علمی کے زمانے میں وہ والا شعر ضرور سُنا ہو گا جس کا ایک مصرع ہے:
تمھاری داستان تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
اس مصرعے میں کوئی شاعرانہ مبالغہ آرائی نہیں ہے، اگر یقین نہیں آتا تو بغیر گوگل کیے صرف یہ بتا دیں ہمارا آخری نگران وزیراعظم کون تھا؟ یا اس سے پہلے کون تھا؟ یا کسی کا ایک کا نام یاد آ رہا ہو تو بتا دیں۔ یہ تاریخ کا وہ کوڑے دان ہے جس میں سب نگران گئے، اور جو اب ہیں وہ بھی جائیں گے۔
کسی نے اچھا کیا وہ بھی بھلا دیا گیا، کچھ بُرا کرنے کے اختیارات ہی نہیں ملتے، اس لیے ان کے نام پر جو بُرا ہوا اس کا الزام بھی انھیں کوئی نہیں دیتا۔ جھنڈے والی گاڑی، پرائیویٹ جہاز اور محل نما گھر کا خواب اتنا عام اور اتنا قدیم ہے کہ نگرانوں کو ہم رشک کی نظر سے دیکھتے ہیں یا حسد کی نظر سے، یا کچھ زیادہ سیانے اُن کے کریئر کے گراف پر نظر دوڑا کر سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اِس منزل تک کیسے پہنچنا ہے۔
لیکن پتا نہیں کیوں موجودہ نگرانوں کو دیکھ کر رشک کی بجائے رحم آتا ہے کیونکہ وہ روز اپنے آپ کو اور پھر ہمیں یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنی محنت اور لگن سے اس مقام تک پہنچے ہیں۔
کبھی اُستادوں کو یاد کرتے ہیں، کبھی ٹی وی کیمرے کے سامنے بیٹھ کر ماں کی دعاؤں کا ذکر کرتے ہیں اور کبھی کیمرے کی آنکھ میں دیکھ کر آنکھوں کو خوابناک بنا کر بتاتے ہیں کہ وزیراعظم ہاؤس میں میرا سب سے پسندیدہ کمرہ میرا بیڈروم ہے۔
ذرا میرے بیڈ روم والی ادا پر غور کیجیے، آپ نے شاید بچپن میں گڑیا، گڈے کی شادی والا کھیل کھیلا ہو گا جس میں بچے گڑیا کی بارات اور گُل پاشی وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں، ہمارے نگران بھی گڑیا، گڈے کی شادی والے کھیل میں مصروف ہیں۔ ان کی حرکتوں کو طاقت کی معصومانہ سی حرص سمجھ کر درگزر کیا جا سکتا تھا اگر ان کے پسندیدہ بیڈ روم کی طرف جانے والی راہداریوں میں خون کے دھبے نہ ہوتے۔
کل رات ہمارے نگران وزیراعظم اپنے پسندیدہ خوابگاہ میں سوئے اور سونے سے پہلے انھیں علم تھا کہ ان کے آبائی صوبے سے ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے بچیاں، عورتیں، بچے اور نوجوان اسلام آباد پہنچے۔
نگران وزیراعظم نے ایک بلوچ صحافی کو بتایا کہ جب میں سونے جا رہا تھا تو میں نے اسلام آباد انتظامیہ کو ہدایات دیں کہ بلوچ مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کیا جائے۔ اب میں نہیں جانتا کہ جب نگران وزیراعظم اپنی خوابگاہ کا دروازہ بند کر لیتے ہیں تو کیا ہوتا ہے۔
ہم تصور کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے فیورٹ بیڈروم میں اپنے فیورٹ بستر پر، اپنی فیورٹ ریشمی رضائی تان کر، اپنی فیورٹ کتاب پڑھتے ہوئے سو جاتے ہیں۔ اس خوابگاہ کے باہر کے مناظر البتہ پورے ملک نے دیکھے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہ GETTY IMAGES
عین اُس وقت جب بلوچستان سے لایا گیا نگران محو خواب ہوا تو اسلام آباد کی سڑکوں پر سخت سردی میں مظاہرین پر پانی والی توپ سے یخ اور غالباً گندے پانی کی بوچھاڑ کی جاتی ہے، وردی والے اور بغیر وردی والے وحشیانہ لاٹھی چارج کرتے ہیں۔ جو صرف اپنے پیاروں کی آزادی اور انصاف مانگنے آئے تھے ان کو گھسیٹ کر تھانوں میں بند کیا جاتا ہے اور پھر سڑکوں پر بسیں کھڑی کر دی جاتی ہیں کہ انھیں جہاں سے آئے ہیں وہاں چھوڑ کر آؤ۔
اب ہمیں کوئی اسلام آباد کے راز جاننے والا ہی بتا سکتا ہے کہ نگران وزیراعظم جب سونے کے لیے اپنے فیورٹ بیڈروم میں جاتا ہے تو دروازہ اندر سے خود بند کرتا ہے یا باہر سے بند کیا جاتا ہے۔ اسلام آباد کی یخ بستہ رات میں پانی کی توپ کی یلغار میں ٹھٹھرتے ایک تھانے سے دوسرے تھانے میں اپنے بچوں کو ڈھونڈتے مظاہرین میں ماہ رنگ اور سمی دین بلوچ بھی شامل ہیں۔
پاکستان کا کوئی بھی صحافی جو کبھی کراچی، کوئٹہ یا اسلام آباد پریس کلب سے گزرا ہے وہ جانتا ہے کہ ماہ رنگ اور سمی بچپن ہی سے احتجاجی کیمپوں میں بیٹھی ہیں، ہماری آنکھوں کے سامنے جوان ہوئی ہیں اور لیڈر بنی ہیں۔ اب اپنے پیارے ہلاک اور گمشدہ بھائیوں کے لیے آواز اٹھانے اسلام آباد پہنچی ہیں، تو پولیس والے ان سے پوچھتے ہیں کہ تمھارے مرد کہاں ہیں؟ کچھ مار دیے، باقی غائب کر دیے، ایک کو وزیراعظم کی خوابگاہ میں بند کر دیا یا اس نے اندر سے کنڈی لگا لی۔
دوسرا سوال یہ کہ وزیراعظم بھی تمھارا، سینیٹ کا چیئرمین بھی، چیف جسٹس بھی تمھارا پھر اسلام آباد میں دربدر کیوں ہو۔ سمی دین بلوچ جس کی تعلیم و تربیت احتجاجی کیمپوں میں ہوئی ہے اس کا سیدھا سا جواب دیتی ہے کہ یہ سوال ان تینوں سے جا کر پوچھو۔ ہمارے تمام سیاستدانوں پر الزام لگتا ہے کہ انھیں جب ضرورت پڑتی ہے تو وہ بوٹ پالش کرنے کے کام پر لگ جاتے ہیں، کبھی کسی بغاوت کا جھانسہ بھی دیتے ہیں لیکن ایک ہاتھ میں بوٹ چمکانے والا برش تیار رکھتے ہیں۔
نگرانوں کی نوکری کی تو غالباً پہلی شرط ہی یہی ہے۔ لیکن نئے نگران شاید اس لیے ایک ہاتھ آگے ہیں کہ سارا دن بوٹوں کے چھوڑے ہوئے خون کے دھبے بھی صاف کرتے ہیں اور پھر تھک ہار کر اپنے فیورٹ بیڈروم میں سو جاتے ہیں۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
About The Author Continue Reading
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر