وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قومی اسمبلی نو اگست کو ٹوٹتی ہے کہ 11 یا 12 اگست کو۔ ہمیں قطعاً دلچسپی نہیں۔ انتظار ہے تو اس بات کا کہ قومی اسمبلی میں 20 رکنی اپوزیشن کے قائد راجہ ریاض احمد خان اگلے دو روز میں کیا فیصلہ کرتے ہیں؟
ہمیں بھی راجہ صاحب کی طرح شدت سے انتظار ہے کہ یکم اگست کو وزیرِ اعظم شہباز شریف اور قائدِ حزبِ اختلاف کی ممکنہ اہم ترین ملاقات میں نگراں وزیرِ اعظم کے نام پر اتفاق ہوتا ہے کہ نہیں۔
آئینی طریقے کے مطابق وزیرِ اعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف تین تین نام پیش کریں گے۔ جس نام پر میاں صاحب اور راجہ صاحب میں اتفاق ہو گا وہی خالی کرسی پر بیٹھے گا۔
اگر ناموں پر ڈیڈ لاک ہو گیا تو پھر ایک اور آئینی بحران جنم لے سکتا ہے۔ چنانچہ ملک کا اگر کوئی آئینی و جمہوری مستقبل ہے بھی تو اس وقت راجہ صاحب فیصل آبادی کے ہاتھ میں ہے۔
راجہ ریاض 1993 سے پارلیمانی سیاست میں منجھ رہے ہیں۔2016 تک وہ پیپلز پارٹی کے جیالے تھے۔ انھوں نے شہباز شریف کے ساتھ پنجاب کی مخلوط حکومت میں بطور وزیرِ آبپاشی بھی کام کیا۔
پیپلز پارٹی میں ڈھائی عشرے گذارنے کے بعد ایک دن پارٹی قیادت سے آپ کے اصولی اختلافات ہو گئے۔ چنانچہ 2018 میں آپ نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن جیتا اور وزارتِ پٹرولیم کے پارلیمانی سیکریٹری نامزد ہوئے۔
مارچ 2022 میں آپ کے عمران خان سے بھی اصولی اختلافات ہو گئے۔ جب عمران خان کے استعفی کے بعد پی ٹی آئی کی پارلیمانی اکثریت بھی قومی اسمبلی سے نکل گئی تو یہ راجہ صاحب ہی تھے جنھوں نے اس جذباتی فیصلے کی مخالفت کی اور 19 دیگر پی ٹی آئی ارکان کو مستعفی نہ ہونے پر آمادہ کر لیا اور جمہوریت کی بقا کی خاطر اسمبلی کے اندر رہ کر آمرانہ سوچ اور موقع پرستی کے خلاف جدوجہد کا فیصلہ کیا۔
چنانچہ راجہ جی کو بادلِ نخواستہ شاہ محمود قریشی کی جگہ قائد حزبِ اختلاف مقرر ہونا پڑا۔ اس حیثیت میں انھوں نے مخلوط حکومت کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا۔
آپ نے یہ تک ببانگِ دہل کہا کہ اگر مجھے جمہوریت کی بقا کے لیے نون لیگ کے ٹکٹ پر بھی کبھی الیکشن لڑنا پڑا تو دریغ نہیں کروں گا۔
حال ہی میں راجہ صاحب نے بطور نگراں وزیرِ اعظم اسحاق ڈار کے نام کی پھلجھڑی چھوڑے جانے پر سخت ردِعمل ظاہر کیا۔ چنانچہ نونیوں کو اپنا غبارہ واپس اتارنا پڑ گیا۔
اس ردِعمل کے بعد سے حکمران جماعت بھی محتاط نظر آ رہی ہے اور اس کی نگاہیں بھی ہماری طرح یکم اگست کو ’دو بڑوں‘ کی مجوزہ ملاقات پر گڑی ہیں۔
ویسے بھی جس طرح کا پارلیمانی ڈھانچہ اس وقت ہمارے ملک میں کام کر رہا ہے ۔اس کے معیار پر نہ راجہ صاحب کو اور نہ ہی ہم جیسے مبصرین کو کوئی ٹینشن ہے۔ اور ٹینشن ہو بھی کیوں؟
مثلاً شمالی کوریا کے بارے میں کم و بیش سب کو مغالطہ ہے کہ یہ کوئی یک جماعتی خاندانی آمریت ہے۔ ایسا ہرگز نہیں۔ جس طرح ہمارے ہاں ووٹرز دو معروف سیاسی خاندانوں کو چاہتے ہیں۔ ان سے کئی گنا محبت شمالی کوریا کے عوام کم ال سنگ کے خاندان سے کرتے ہیں ۔اسی لیے وہاں اب آلِ کم کی چوتھی پیڑھی برسرِ اقتدار ہے۔
جو لوگ شمالی کوریا کو دنیا کی پہلی کیمونسٹ بادشاہت ہونے کا طعنہ دیتے ہیں وہ بھول جاتے ہیں کہ 75 برس سے ہردلعزیز کورین ورکرز پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود شمالی کوریا ایک کثیر الجماعتی ریاست ہے۔ اس کی پارلیمنٹ میں ڈیموکریٹک فرنٹ کے علاوہ سوشلسٹ پیٹریاٹک یوتھ لیگ، ویمن لیگ، لیبر لیگ اور کسان لیگ سمیت پوری پانچ اپوزیشن جماعتیں ہیں۔
مگر یہ اپوزیشن ہماری طرح بات بے بات مخالفت اور بال کی کھال نکالنے پر یقین نہیں رکھتی۔ جب کبھی بھی ملکی مفاد میں حکمران پارٹی سے اختلاف کا موقع آئے گا اپوزیشن مافی الضمیر بیان کرنے سے ہرگز نہیں چوکے گی۔
اسی طرح مصر میں جنرل عبدالفتح السیسی حزبِ مستقبل جماعت کی قیادت کرتے ہوئے عوامی ریفرنڈم کے بل پر 2017 میں صدر منتخب ہوئے۔ مصر میں 104 رجسٹرڈ سیاسی جماعتیں ہیں اور پارلیمنٹ میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سمیت حزبِ اختلاف کی درجن بھر پارٹیاں سرکاری پالیسیوں پر تنقید کا پورا پورا آئینی حق بھی رکھتی ہیں۔
آپ کو شاید یاد ہو کہ مصر میں حسنی مبارک کی آمریت کے خاتمے کے بعد 2012 میں اخوان المسلیمن کی حمایت سے فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے محمد مرسی انتخابات جیت کر صدر منتخب ہوئے تھے۔ مگر ایک برس میں ہی انھوں نے وہ وہ ادھم مچایا کہ فوج کو مجبوراً دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت سے دوبارہ باگ ڈور سنبھالنا پڑی۔
وہاں بھی فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی نے نو مئی کرنے کی کوشش کی۔ مگر اس کے کل پرزے سیدھے کرنے کے بعد ملک دوبارہ جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھا دیا گیا۔ اس جمہوریت میں سماج دشمن غیر محبِ وطن فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کی کوئی جگہ نہیں بنتی لہذا اسے کالعدم قرار دینا پڑا۔ آج کی مصری جمہوریت میں حکومت اپنا کام کرتی ہے اور اپوزیشن اپنے کام سے کام رکھتی ہے ۔سب ہنسی خوشی رہتے ہیں۔
کون کہتا ہے ایران میں جمہوریت نہیں۔ وہاں باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں۔ ایرانی مجلس میں اپوزیشن بھی ہمیشہ رہی۔ 2020 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں نو ہزار امیدوار صادق اور امین نہ ہونے کے سبب نااہل قرار پانے کے باوجود باقی سات ہزار امیدوار جوش و خروش سے کھڑے ہوئے اور پھر ہار گئے۔
اس اعتبار سے ہمارے خطے میں ایرانی جمہوریت سب سے شدھ (پاکیزہ) جمہوریت ہے جہاں سیاسی آلودگی انتخابی عمل شروع ہونے سے پہلے ہی چھان دی جاتی ہے تاکہ پارلیمانی ماحول گندہ یا پراگندہ نہ ہو۔
تازہ مثال تھائی لینڈ کی ہے جہاں ایک 42 سالہ ہارورڈ پلٹ گریجویٹ پیتا لم جاروئن رت نے موو فارورڈ پارٹی قائم کر کے تھائی لینڈ کی بادشاہت کو آئینی اختیارات تک محدود رکھنے اور سیاست میں فوج کی عشروں پرانی سیادت کے خاتمے کا نعرہ لگا کے انتخابی میلہ لوٹ لیا اور پانچ سو نشستوں میں سے نصف جیت لیں۔
مگر وہ پھر بھی وزیرِ اعظم نہ بن سکا۔ کیونکہ سینیٹ کی تمام ڈھائی سو نشستیں شاہ پرست فوج نامزد کرتی ہے اور سینیٹ کے صرف 13 ارکان نے جواں سال پیتا کے حق میں ووٹ دیا۔ پھر آئینی عدالت نے ایک میڈیا کمپنی میں شئیرز رکھنے کے جرم میں پیتا کو اسمبلی رکنیت سے ہی معطل کر دیا۔
یہ مثالیں دینے کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ ہمارے قائدِ حزبِ اختلاف راجہ ریاض کو فیصل آباد کی زندہ جگت کہتے ہیں۔ انھیں کان ہو کہ ہمارے ہاں کی جمہوریت کتنی غنیمت ہے۔ بیشتر ایشیائی و افریقی ممالک کی جمہوریت کو تو راجہ ریاض تک نصیب نہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر