نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یوم پاکستان۔ قومی یکجہتی کی ضرورت !!!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک بھر میں یوم پاکستان ملی جوش و جذبے سے منایا گیا، وفاقی دارالحکومت میں دن کا آغاز 31 توپوں اور چاروں صوبائی دارالحکومتوں کراچی ، لاہور ، پشاور اور کوئٹہ میں 21 توپوں کی سلامی سے ہوا۔ خراب موسم کے باعث ایوان صدر میں ہونے والی یومِ پاکستان کی پریڈ ملتوی کی گئی جو کہ آج 25مارچ کو متوقع ہے۔ لاہور میں مزار اقبال پر گارڈز کی تبدیلی کی تقریب بھی ہوئی، پاک فضایہ کے چاک و چوبند دستے نے مزار اقبال پر اعزازی گارڈ کے فرائض سنبھالے۔ پاکستان بھر میں یوم پاکستان کی مناسبت سے ریلیاں نکالی گئیں اور تقاریب کا اہتمام ہوا۔کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے مزار قائد پر حاضری دی۔ خوش آئند بات ہے کہ عالمی لیڈروں نے بھی یوم پاکستان پر تہنیتی پیغامات بھیجے۔ امریکی ایوان نمائندگان میں کانگریس رکن جمال بومن 23 مارچ کو یوم پاکستان قرار دینے کی قرار داد پیش کی گئی۔ چینی صدر شی جنگ پنگ نے یوم پاکستان پر صدر عارف علوی کو جبکہ چینی وزیر اعظم لی چیانگ نے وزیر اعظم شہباز شریف کو مبارکباد دی ، چینی وزیر خارجہ گانگ نے پاکستانی ہم منصب بلاول بھٹو زرداری کو تہنیتی پیغام بھی بھیجا۔ برطانوی بادشاہ چارلس ، خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بند عبدالعزیز اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے صدر مملکت اور پاکستانی عوام کو یوم پاکستان کی مبارکباد دی۔ یوم پاکستان پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور چاروں گورنرز نے صحت ، تعلیم، ادب ، صحافت ، فنون لطیفہ اور انسداد دہشت گردی سمیت مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات پر ملکی اور غیر ملکی شخصیات کو سول اعزازات سے نوازا، اس سلسلہ میں ایوان صدر سمیت چاروں گورنر ہائوسز میں تقاریب کا اہتمام ہوا۔ سرتاج عزیز، میر حاصل خان بزنجو مرحوم، آنجہانی جسٹس (ر) رانا بھگوان داس، قوی خان مرحوم ، جہانگیر خان ، جان شیر خان، امجد اسلام امجدمرحوم ، عارف نظامی مرحوم ، مجیب الرحمن شامی، الطاف حسن قریشی، رمضان چھیپا اور معروف سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی سمیت دیگرشخصیات کو سول اعزازات دئیے گئے ، بلوچستان کے دو صحافیوں ارشاد مستوئی اور شاہد زہری کو بعد از موت تمغہ شجاعت سے نوازا گیا۔ یوم پاکستان پر اعزازات کا اجراء خوش آئند بات ہے تاہم اس سلسلے میں شفافیت کے عمل کو سامنے رکھنا اس لئے ضروری ہے کہ حق داروں کی حق تلفی نہ ہو اور اعزاز کا وقار مجروح نہ ہو جیسا کہ میرے آبائی ضلع رحیم یار خان میں تعینات رہنے والے ایک پولیس افسر کو بھی تمغہ شجاعت سے نوازا گیا، ان کی تعیناتی کے دوران رحیم یار خان میں ان کی شہرت ماورائے عدالت جعلی پولیس مقابلوں کی تھی۔ یوم پاکستان کے پس منظر پر نظرڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ23مارچ 1940 ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسویں اجلاس ہوا جس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے کی، اس اجلاس میں قرارداد منظور کی گئی او ربعد ازاں اسی جگہ پر یادگار بنانے کا فیصلہ ہوا۔ 1960 ء میں ’’ پاکستان ڈے میموریل کمیٹی ‘‘ قائم کی گئی ۔ بائیس رکنی اس کمیٹی میں معروف صوفی شاعر صوفی غلام مصطفی تبسم بھی شامل تھے۔ یادگار کو روسی نژاد ترک مسلمان مرات خان نے بنایا، اس کی بلند ی196 فٹ ہے۔مینار پاکستان پر 19 تختیاں نصب ہیں، اردو ، انگریزی زبان میں قرارداد لاہور کا متن درج ہے، اس میں خودمختار ریاستوں کے الفاظ شامل ہیں ۔ ان ریاستوں کا مطلب صوبے تھے، صوبوں کو اختیارات اور خود مختاری تو کیا صوبے ختم کر کے ون یونٹ بنایا گیا ۔ لاہور میں بنائی جانیوالی یادگار کے لفظ ’’ یادگار ‘‘ پر اعتراض ہوا کہ یادگار تو ختم ہو جانے والی چیز کی ہوتی ہے ، پاکستان زندہ ہے، اس کی یادگار بنانا کونسی دانشمندی ہے ؟۔ اعتراض کے بعد اس کو ’’ مینار پاکستان ‘‘ کا نام دیا گیا ۔ آج یوم پاکستان کے موقع پر جہاں قوم کو یکجہتی کی ضرورت ہے ، پاکستان میں 76 کے قریب زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں یہاں بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ زبانیں جو نصابی اہلیت کے حامل ہیں انہیں قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے۔ یوم پاکستان کے موقع پر ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ہم سابقہ غلطیوں کو پھر سے نہ دہرائیں۔ قیام پاکستان کے وقت ایک زبان کو قومی زبان قرار دینے کے منفی نتائج سامنے آئے اور ہم مشرقی پاکستان سے بھی محروم ہوئے۔ اب اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم حقائق کو تسلیم کریں اور پاکستانی زبانوں کو اُن کے حقوق دیں۔ پاکستانی علاقائی زبانوں میں بھی تدریس دی جائے،پاکستانی زبانوں پنجابی، سرائیکی، سندھی، پشتو، پوٹھو ہاری، ہندکو، بلتی شینا، پروشسکی، پہاڑی، دری، کوہستانی، کشمیری، گوجری، بلوچی اور براہوی وغیرہ کے تدریسی پہلو کو پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی تہذیبی اور ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے کے لئے مقامی زبانوں کو محفوظ کرنا ضروری قرار دیا جاتا ہے۔ سندھی کے بعد اب پشتو اور کسی حد تک پنجابی عمومی تدریس نصاب کا حصہ بنی ہیں۔ بلوچی، سرائیکی اور کشمیری کہیں کہیں خاص تدریس میں شامل ہیں۔ باقی علاقائی زبانوں کے سیکھنے اور سکھانے کے حوالے سے کافی مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ بہت سی علاقائی زبانیں صرف بول چال کا حصہ ہیں اور ان کا رسم الخط اور بنیادی گرامر کا کہیں وجود نہیں ملتا جو کہ ان کی بقاء کے لئے خطرناک ہے۔ علاقائی زبانوں کی ثقافت کے لئے بھی خطرے میں ہے کہ ہمارے دیہی علاقوں سے شہروں میں ہجرت کرنے والے لوگ زیادہ تر اردو ، انگریزی کا سہارا لیتے ہیں اور ان کی آنے والی نسلیں اپنی علاقائی زبان اور ثقافت کو نہیں سیکھ پاتیں، اس طرح ایک زبان موت کاشکار ہو جاتی ہے ۔ سرائیکی وسیب کے لوگوں کی پاکستان کیلئے بہت خدمات ہیں ، ان کو صلہ تو کیا حقوق بھی نہیں مل سکے مگر وہ نئی صبح کا انتظار کر رہے ہیں کہ سرائیکی وسیب کے لوگوں کو ان کی شناخت اور صوبہ ضرور ملے گا ۔

 

 

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author