وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بٹوارے کے برسوں میں اردو ادب اپنے نقطہ کمال پر تھا۔ ہندوستان کی تقسیم، فسادات اور سرحد کے آرپار تبادلہ آبادی جیسے موضوعات سے حساس تخلیق کاروں کا لاتعلق رہنا ممکن ہی نہیں تھا۔ فیض، منٹو، کرشن چندر، بیدی، احمد ندیم قاسمی اور اشفاق احمد، کون تھا جس نے کائناتی سطح کے اس انسانی المیے پر قلم نہیں اٹھایا۔ اس ہنگامے کا ایک نہایت حساس حصہ ان مظلوم عورتوں سے تعلق رکھتا تھا جنہیں فسادات کے دوران اغوا کر لیا گیا۔ انسانی تاریخ میں جنگ ہو یا خانہ جنگی، عورتوں پر گزرنے والی قیامت بظاہر تہذیب کے لبادے میں ملبوس مخلوق کے اندر چھپی درندگی کو بے نقاب کر دیتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں جرمن، روسی، جاپانی اور امریکی فوجیوں کے افعال پر بہت کچھ لکھا گیا لیکن اطالوی ادیب البرٹو موریویا (Alberto Moravia) کا 1957 میں لکھا ناول Two Women اس موضوع پر حرف آخر کا درجہ رکھتا ہے۔ اس ناول پر ہدایت کار وٹوریو ڈی سیکا (Vittorio De Sica) نے 1960 میں ایک شہرہ آفاق فلم بنائی تھی جس میں ماں کا مرکزی کردار ادا کرنے والی صوفیہ لارین کو آسکر ایوارڈ ملا تھا۔ 1954 میں ایک نامعلوم جرمن مصنفہ نے A Woman in Berlin کے عنوان سے روسی قابض افواج کا جرمن خواتین پر بہیمانہ ظلم ایک دل گداز کتاب میں دستاویز کیا تھا۔ نصف صدی بعد 2003 میں انکشاف ہوا کہ یہ کتاب جرمن صحافی Marta Hillers کی خود نوشت تھی جن کا 2001 میں انتقال ہو چکا تھا۔ ہمارے ہاں منٹو نے ’کھول دو‘ میں نام نہاد مسلم لیگی کارکنوں کی کارگزاری اس ژرف نگاہی سے بیان کی کہ حکومت نے بلبلا کر فحاشی کا مقدمہ قائم کر دیا۔ مختار صدیقی ریڈیو کے آدمی تھے۔ دھیمے لہجے میں بات کہنے کی تربیت پائی تھی۔ اس موضوع پر ان کی مختصر نظم ’باز یافتہ‘ کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔ سرحد پار راجندر سنگھ بیدی نے ’لاجونتی‘ کے عنوان سے طوفان کے بعد معمول کی طرف لوٹتی خارجی دنیا میں متاثرہ فرد کی داخلی ٹوٹ پھوٹ کی منی ایچر تصویر کشی کی تھی۔ معلوم انسانی تاریخ میں عورت پر گزرنے والی قیامتیں جسمانی طاقت کے بل پر نا انصافی کی ناقابل تردید گواہی ہیں۔
آج اس موضوع کا انتخاب یوں ہوا کہ پاکستان میں 1973 کا دستور نافذ ہوئے پچاس برس مکمل ہو گئے ہیں۔ اس موقع پر آئین کی گولڈن جوبلی تقریبات کا اہتمام ہو رہا ہے۔ گزشتہ روز ایوان بالا میں وزیراعظم پاکستان نے خطاب کیا۔ سینٹ میں اس تقریب کی وجہ یہ تھی کہ وفاق پاکستان میں آزادی کے 26 برس بعد پہلی بار سینٹ کا ادارہ قائم ہوا تھا جہاں وفاق کی چاروں اکائیوں کو یکساں نمائندگی دے کر وفاق کا بنیادی تقاضا پورا کیا گیا تھا۔ یہ قدم آزادی کے ابتدائی برسوں میں اٹھانا چاہیے تھا لیکن ہمیں کچھ ضروری کام درپیش تھے۔ ہمیں قرارداد مقاصد منظور کر کے قومی ریاست میں شہریوں کی بلا امتیاز مساوات کا اصول مجروح کرنا تھا۔ یکے بعد دیگرے کم از کم آٹھ مرکزی اور صوبائی اسمبلیاں برطرف کرنا تھیں۔ نوکر شاہی اور باوردی قوتوں میں گٹھ جوڑ تشکیل دینا تھا۔ آئے روز بھانت بھانت کے وزیراعظم دریافت کرنا تھے اور رات کی تاریکی میں انہیں مطبوعہ سے مخطوطہ قرار دینا تھا۔ اپنے وطن کے اکثریتی حصے سے بیگانگی اختیار کر کے مشرق وسطیٰ سے خود ساختہ رشتے گانٹھنا تھے۔ کبھی 1956ءکے سویز بحران میں وزیراعظم سہروردی کے بیانات اور اس پر جمال عبدالناصر کا ردعمل نکال کر دیکھئے گا۔ ہمیں سیٹو اور سینٹو کا حصہ بن کر سرد جنگ میں ازخود فریق بننے میں دلچسپی تھی۔ ہمیں ون یونٹ قائم کرنا تھا جس کا خواب جنرل ایوب خان نے 1954ءمیں لندن کے کرامویل ہسپتال میں دیکھا تھا۔ ہمیں پاکستان کے بانی سیاست دانوں کو غدار قرار دینا تھا۔ ہمیں دستور ساز اسمبلی توڑنا تھی۔ 1956ءکا دستور منسوخ کرنا تھا۔ ایک شخصی دستور کا تجربہ کرنا تھا۔ بلوچستان سے مشرقی پاکستان تک فوجی کارروائیوں کے تجربات کرنا تھے۔ ایسی ہی ایک کارروائی کے نتیجے میں آدھے سے زیادہ ملک علیحدہ ہو گیا جسے ہم نے ’مقامی کمانڈروں میں سمجھوتہ‘ قرار دے کر قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکی تھی۔ جی ایچ کیو راولپنڈی میں چیف آف جنرل سٹاف نے بریگیڈیئر اے آر صدیقی کو بلا کر کہا Go and prepare the nation mentally for the shock. Tell them any damned thing. It’s your bloody job. اس توہین آمیز جملے کا اردو ترجمہ ممکن نہیں۔
ان حالات میں ذوالفقار علی بھٹو کو ایک سرزمین بے آئین سونپی گئی تھی۔ 146 کے ایوان میں 110 ارکان کا اعتماد رکھنے والے وزیراعظم نے فیصلہ کیا کہ ملک کو ایک مستقل دستور دینے کے لیے وسیع تر اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ 17 اپریل 1972ءکو دستور سازی کے لیے 25 رکنی کمیٹی میں حزب اختلاف کے چھ ارکان شامل کیے گئے۔ 20 اکتوبر 1972ءکو آئینی سمجھوتہ طے پا گیا جس میں بائیں اور دائیں بازو کی قوم پرست اور مذہب پسند سیاسی قوتوں کے تحفظات کو جگہ دی گئی تھی۔ ملک کے لیے پارلیمانی جمہوریت، دو ایوانی مقننہ، بالغ رائے دہی اور اختیارات کی تقسیم کے اصول طے کیے گئے۔ دستور کے تحفظ کے لیے آرٹیکل 6 شامل کیا گیا۔ 1973ءکا دستور ملک کی 75 سالہ تاریخ میں عوام کی عظیم ترین کامیابی اور قومی سلامتی کی سب سے مضبوط ضمانت ہے۔ گزشتہ پچاس برس میں اس دستور کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا؟ کیسے اسے بار بار معطل کیا گیا۔ اس کے بنیادی خد و خال مسخ کیے گئے۔ دستور میں دیے گئے بنیادی حقوق کس طرح پامال کیے گئے۔ کم از کم بیس برس تک یہ دستور سنگین کی نوک پر بالائے طاق رکھا گیا۔ یہ ایک اور جاں گسل حکایت ہے جس کا مکمل احاطہ کرنا آئندہ نسلوں کی امانت ہے۔ آج یہ یاد رکھنے کا موقع ہے کہ 1973ءکا دستور سلامت ہے اور اس دستور کی بالادستی اور تسلسل کے لیے جدوجہد کرنے والی جمہوری قوتوں نے پسپائی اختیار نہیں کی۔ لاجونتی اور برلن کی عورت کی سسکی طاقت ور کی بندوق سے خاموش نہیں کی جا سکتی۔
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر