محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوشل میڈیا کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ لکھاری اور پڑھنے والے کے درمیان انٹرایکشن بہت بڑھ گیا ۔ اخبارات میں کالم لکھنے والے یا ٹی وی ٹاک شو کے اینکرز ہوں، ان کا اپنے پڑھنے، دیکھنے سننے والوں سے براہ راست رابطہ نہیں رہتا۔ کسی زمانے میں لوگ اخبارات میں خط لکھا کرتے تھے ۔پھر ای میلز نے قدرے آسانی پیدا کر دی۔ یہ مسئلہ مگر سب سے عمدہ طریقے سے سوشل میڈیا نے حل کیا ہے۔ ہم اپنا کالم ، بلاگ وغیرہ فیس بک پر لگاتے ہیں، اگلے ایک دو گھنٹے میں سینکڑوں اور بہت بار تو ہزاروں لوگوں کا ردعمل آ جاتا ہے، کمنٹس، لائیک وغیرہ کی صورت میں۔
سوشل میڈیا کے اسی انٹرایکشن سے اندازہ ہوتا ہے کہ بہت سے ایشوز پر ہمارے موقف کو بعض حلقے درست طریقے سے سمجھ نہیں پاتے۔ اب اسی ”میرا جسم میری مرضی “کے سلوگن ہی کو لے لیں۔ جو حلقہ اس کا حامی ہے اور وکالت کرتا ہے، ان میں سے بہت سوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان میں یہ نعرہ اتنا متنازع کیوں بن چکا ہے، مذہبی حلقے یا معروف اصطلاح میں رائٹ ونگ والے اس کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟
” میرا جسم میری مرضی“ کے سلوگن پر تنقید کی دو تین بڑی وجوہات ہیں۔
پہلی یہ کہ سلوگن بنیادی طور پر مغرب سے آیا، وہاں کی فیمنسٹ تحریکوں نے اسے لانچ کیا اور پھر رفتہ رفتہ مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا۔ بنیادی اصطلاح انگریزی کی ہے، مائی باڈی مائی چوائس(My Body My Choice)۔امریکہ میں خاص طور سے یہ بہت اہم اصطلاح ہے جس کا ایک خاص سیاسی مفہوم اور تناظر ہے۔
امریکہ میں سیاست دو جماعتوں میں تقسیم ہے، ری پبلکن اور ڈیموکریٹ ۔ ری پبلکن روایتی طور پر نسبتاً قدامت پسند(Conservative)، مذہبی اور روایت پسند ہیں۔
جنوبی امریکہ کی کئی اہم ریاستیں ہمیشہ سے ری پبلکن کا گڑھ رہی ہیں۔ زیادہ تر وائٹ آبادی ری پبلکن ووٹر ہے ،بعض امریکی ریاستوں اور خاص طور سے ان کے درمیانے اور چھوٹے شہروں میں آبادی خاصی مذہبی ہے، باقاعدگی سے چرچ جانے والی۔ ان کے لئے بائبل سٹیٹس کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے۔ ان میں مسی سپی، ٹینسیی ، لوزیانا، ساﺅتھ کیرولینا، نارتھ کیرولینا، جارجیا، اوکلوہاما،الاباما،ارکنساس وغیرہ شامل ہیں۔ کئی ریاستوں کی ستر فیصد کے قریب آبادی(مسیحی) مذہبی ہے۔ ان علاقوں میں مسیحی تبلیغی ایوانجلسٹ بھی ایکٹو رہتے ہیں۔ ری پبلکن ہمیشہ سے اسقاط حمل کے مخالف رہے ہیں کہ ابارشن کرا کر بچے کو ایک طرح سے قتل نہ کرو۔ خدا اور آسمانی کتاب بائبل کے احکامات اور مذہبی روایات وغیرہ کی ان علاقوں میں آج بھی اچھی بھلی اہمیت ہے۔
اس کے مقابلے میں ڈیموکریٹ پارٹی کے زیادہ تر ووٹر نسبتاً سیکولر اور نسبتاکم مذہبی ہیں۔ ان میں سفید فام بھی شامل ہیں، مگر کالے ، ہسپانوی اور تارکین وطن کی بڑی تعداد ڈیموکریٹ سے جڑی ہے۔
ڈیموکریٹ ووٹرز مذہب سے زیادہ لبرل اور سیکولر قدروں کے حامی ہیں۔ وہ الہامی احکامات کے بجائے فرد کی اپنی مرضی اور رائے کو ترجیح دینے کے حق میں ہیں۔ ان کے خیال میں عورت کو ابارشن کا حق(چوائس) حاصل ہونا چاہیے، یہ صرف وہی فیصلہ کر سکتی ہے کہ بچہ پیدا کرے یا اسقاط حمل کرے۔ امریکی سیاست میں اسے پرو چوائس (Pro Choice)کہا جاتا ہے۔ امریکہ میں ایل جی بی ٹی (لیزبین، گے ، بائیو سیکشوئل، ٹرانس جینڈر وغیرہ)کے حق کی سب سے زیادہ حمایت ڈیموکریٹس نے کی ہے۔ فیمنسٹ تحریکیں بھی ڈیموکریٹ حلقوں ہی سے پھوٹی ہیں۔ میساچوسٹس، نیویارک، نیوجرسی ،کیلی فورنیا، کولوریڈو،میری لینڈ وغیرہ میں ڈیموکریٹس مضبوط ہیں۔
”مائی باڈی مائی چوائس“ یا پاکستانی ورشن میں ”میرا جسم میری مرضی“ کا سلوگن انہی لبرل ، سیکولر فیمنسٹ تحریکوں نے تخلیق کیا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ خیال آگے بڑھانا ہے کہ عورت ہی اپنے جسم کی مالک ہے اور وہ جو چاہے اس کے ساتھ کرے۔ جس کے ساتھ سیکس کرے، جس طرح چاہے سیکس کرے (یعنی سٹریٹ یا لیزبین یا کچھ اور) ، جب چاہے بچہ پیدا کرے، جب چاہے ابارشن کرے، جس طرح کے چاہے کپڑے پہنے۔ قصہ مختصر کہ اپنی زندگی، اپنے جسم اور اپنی ذات کے ساتھ جو کچھ بھی وہ کرنا چاہتی ہے، کرے۔ یہ اس کا حق ہے، کسی دوسرے کو کوئی حق نہیں کہ وہ اس پر اثرانداز ہو۔
پاکستان میںمسئلہ یہ بھی ہے کہ” میرا جسم ، میری مرضی “کا نعرہ دینے والے نہ صرف لبرل فیمنسٹ ہیں بلکہ ان میں سے اکثر چند مخصوص این جی اوز سے وابستہ ہیں ، جن کی فنڈنگ امریکی یا یورپی ادارے کرتے ہیں۔ یہ حلقے نہایت بے تدبیری اور نالائقی سے خواتین کے حقیقی ایشوز اور مسائل کی طرف توجہ دلانے کے بجائے ایک خاص قسم کے مغربی تہذیبی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں ۔ ان کے عورت مارچ میں جا کر دیکھ لیا جائے کہ اکثر یت کا تعلق کس کلاس سے ہے؟یہ بھی کہ ٹرانس جینڈر کیسے جوش وخروش سے اس کا حصہ بنتے ہیں؟ واضح طور پر پاکستانی لوئر مڈل کلاس، مڈل کلاس اور لوئر کلاس اس کا حصہ نہیں ہوتی۔ مذہب بیزاری ، خاندانی روایات سے بغاوت ان کا بنیادی جز ہے اور اور مشرقی اسلامی تہذیب ان کا ہدف۔
ہمارے ہاں خواتین کے مسائل بہت سے ہے، کوئی احمق ہی ان کا انکار کرے گا۔ ملازم پیشہ خواتین کے مسائل بہت سے ہیں، گھر بیٹھی خواتین کو بھی حقوق نہیں ملتے۔ موروثی جائیداد میں حصہ دلانا بذات خود ایک بڑا چیلنج ہے۔ بہت سے روایتی زمیندار گھرانوں میں بیٹیوں ، بہنوں کو جائیداد دینے کے بجائے ان سے لکھوا لیا جاتا ہے کہ اپنے بھائیوں کوحصہ تحفے کے طور پر دے دیا۔ یہ ہر اعتبار سے غلط اور غیر شرعی ، غیر قانونی ہے۔
میری ذاتی رائے میں حق مہر معاف کرانے کی دستاویز کو تو کسی بھی صورت میں تسلیم کرنا ہی نہیں چاہیے۔ عورت اگر چاہے بھی تو اس کا حق مہر معاف نہیں ہونا چاہیے۔، اسی طرح موروثی جائیداد میں حصہ آٹو میٹک طور پر اسے منتقل ہوجانا چاہیے۔ خواتین کی صحت کے حوالے سے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ آج بھی حمل کے موقعہ پر بہت سی بچیاں اپنی زندگی خطرے میں ڈالتی ہیں۔ غربت، عدم معلومات اور دیگر مسائل کی وجہ سے بے شمار خواتین حمل کے دوران مناسب خوراک نہیں لے سکتیں،نتیجہ کمزور ذہن والے بچوں کی پیدا ئش کی صورت میں نکل رہا ہے۔ اس سب کچھ کی طرف ریاستی توجہ مبذول کرانی چاہیے ۔
کام کی جگہ پر ہراسمنٹ آج بھی بڑا ایشو ہے۔ اب کچھ اداروں نے سخت قوانین بنا دئیے ہیں، مگر بہت کچھ مزید کرنا پڑے گا۔ ملازم پیشہ خواتین کے لئے دفتر پہنچنا ایک بڑا ایشو ہے۔ ان کے لئے کبھی کسی حکومت نے علیحدہ ٹرانسپورٹ چلانے کی زحمت نہیں کی۔ آسانی سے روٹین میں اور خاص طور سے دفاتر آنے جانے کے وقت میں لیڈیز اونلی پنک بسیں، وین چلائی جاسکتی ہیں۔
یہ ایک مغالطہ ہے کہ” میرا جسم میری مرضی“ سے مراد عورت کو تشدد، ظلم اور زیادتی سے محفوظ بنانا ہے۔ نہیں یہ ایک دھوکا ہے۔میرا جسم میری مرضی کا ایک خاص تناظر اور خاص مفہوم ہے۔ آپ اس سے انکار کرنا چاہیں بھی تو نہیں کر سکتے۔ الفاظ اور اصطلاحات کا وہی مفہوم ہوتا ہے جو دنیا بھر میں رائج ہوچکا ۔ پاکستان میں یہ اس لئے بھی غلط ہے کہ ہمارے قوانین کسی عورت کو اپنے جسم پر اپنی مرضی چلانے کی مطلق اجازت نہیں دیتے۔ اگر کوئی خاتون چاہے بھی تو کسی سے غیر قانونی طور پر جسمانی تعلقات نہیں قائم کر سکتی۔ یہ قانونی طور پر جرم ہوگا اور سخت سزا مل سکتی ہے۔ اسی طرح نامناسب کپڑے پہننے کی بھی اجازت نہیں۔ ایسا نہیں کہ کوئی خاتون اپنے جسم پر اپنی مرضی سے نیم عریاں لباس پہن لے۔ مغرب میں تو یہ روا ہوگا، پاکستان میںعوامی ردعمل ایک طرف ، قانونی طور پر بھی ایسا کرنے کی اجازت نہیں۔
پاکستانی مذہبی حلقے یا رائٹ ونگ والے خواتین کے مسائل دور کرنے کے حامی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہماری بچیوں پر کسی بھی صورت میں ظلم، تشدد نہ ہو ، وہ آرام اور سکون سے اپنے گھروں میں رہیں اور چاہیں تو اپنے گھر کی معاشی کفالت کے لئے باہر بھی جائیں مگر یہ سب کچھ ڈیسنٹ لباس اور اچھے اسلامی مشرقی طرز کے مطابق ہو۔ ہمارا ماننا ہے کہ مرد ہو یا عورت اس کے جسم پر سب سے زیادہ اس کے تخلیق کار یعنی اس کے رب کا حق ہے۔ اسے زندگی رب کے احکامات کے مطابق ہی گزارنی چاہیے۔ یہ بات میرے جیسے لوگ نہ صرف اپنی بیٹی بلکہ اپنے بیٹوں کو بھی سمجھاتے ہیں۔
ہم اپنے بیٹوں کونظر کی حفاظت اورغیر خواتین کی عزت اپنی بہنوں کی طرح مقدم رکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔انہیں کہتے ہیں کہ وہ کبھی کسی خاتون پر ہاتھ نہ اٹھائیں، ظلم نہ کریں اور وقت آنے پر ان کے تمام حقوق خوش اسلوبی سے ادا کریں، یہی اللہ کا ان سے مطالبہ ہے۔ اپنی بیٹیوں سے ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے، امہات المومنینؓ اور بی بی خاتون جنت جنابہ سیدہ فاطمہ ؓ کے طرز زندگی کی تقلیدکریں۔ ہمارے نزدیک” میرا جسم ، میری مرضی“ کے مجہول مغربی نعرے کے بجائے” ہماری زندگی اورہمارا سب کچھ رب کریم کے لئے ہے “کا سلوگن ہی اہم اور ترجیحی ہے۔
سوشل میڈیا کے اسی انٹرایکشن سے اندازہ ہوتا ہے کہ بہت سے ایشوز پر ہمارے موقف کو بعض حلقے درست طریقے سے سمجھ نہیں پاتے۔ اب اسی ”میرا جسم میری مرضی “کے سلوگن ہی کو لے لیں۔ جو حلقہ اس کا حامی ہے اور وکالت کرتا ہے، ان میں سے بہت سوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان میں یہ نعرہ اتنا متنازع کیوں بن چکا ہے، مذہبی حلقے یا معروف اصطلاح میں رائٹ ونگ والے اس کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟
” میرا جسم میری مرضی“ کے سلوگن پر تنقید کی دو تین بڑی وجوہات ہیں۔
پہلی یہ کہ سلوگن بنیادی طور پر مغرب سے آیا، وہاں کی فیمنسٹ تحریکوں نے اسے لانچ کیا اور پھر رفتہ رفتہ مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا۔ بنیادی اصطلاح انگریزی کی ہے، مائی باڈی مائی چوائس(My Body My Choice)۔امریکہ میں خاص طور سے یہ بہت اہم اصطلاح ہے جس کا ایک خاص سیاسی مفہوم اور تناظر ہے۔
امریکہ میں سیاست دو جماعتوں میں تقسیم ہے، ری پبلکن اور ڈیموکریٹ ۔ ری پبلکن روایتی طور پر نسبتاً قدامت پسند(Conservative)، مذہبی اور روایت پسند ہیں۔
جنوبی امریکہ کی کئی اہم ریاستیں ہمیشہ سے ری پبلکن کا گڑھ رہی ہیں۔ زیادہ تر وائٹ آبادی ری پبلکن ووٹر ہے ،بعض امریکی ریاستوں اور خاص طور سے ان کے درمیانے اور چھوٹے شہروں میں آبادی خاصی مذہبی ہے، باقاعدگی سے چرچ جانے والی۔ ان کے لئے بائبل سٹیٹس کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے۔ ان میں مسی سپی، ٹینسیی ، لوزیانا، ساﺅتھ کیرولینا، نارتھ کیرولینا، جارجیا، اوکلوہاما،الاباما،ارکنساس وغیرہ شامل ہیں۔ کئی ریاستوں کی ستر فیصد کے قریب آبادی(مسیحی) مذہبی ہے۔ ان علاقوں میں مسیحی تبلیغی ایوانجلسٹ بھی ایکٹو رہتے ہیں۔ ری پبلکن ہمیشہ سے اسقاط حمل کے مخالف رہے ہیں کہ ابارشن کرا کر بچے کو ایک طرح سے قتل نہ کرو۔ خدا اور آسمانی کتاب بائبل کے احکامات اور مذہبی روایات وغیرہ کی ان علاقوں میں آج بھی اچھی بھلی اہمیت ہے۔
اس کے مقابلے میں ڈیموکریٹ پارٹی کے زیادہ تر ووٹر نسبتاً سیکولر اور نسبتاکم مذہبی ہیں۔ ان میں سفید فام بھی شامل ہیں، مگر کالے ، ہسپانوی اور تارکین وطن کی بڑی تعداد ڈیموکریٹ سے جڑی ہے۔
ڈیموکریٹ ووٹرز مذہب سے زیادہ لبرل اور سیکولر قدروں کے حامی ہیں۔ وہ الہامی احکامات کے بجائے فرد کی اپنی مرضی اور رائے کو ترجیح دینے کے حق میں ہیں۔ ان کے خیال میں عورت کو ابارشن کا حق(چوائس) حاصل ہونا چاہیے، یہ صرف وہی فیصلہ کر سکتی ہے کہ بچہ پیدا کرے یا اسقاط حمل کرے۔ امریکی سیاست میں اسے پرو چوائس (Pro Choice)کہا جاتا ہے۔ امریکہ میں ایل جی بی ٹی (لیزبین، گے ، بائیو سیکشوئل، ٹرانس جینڈر وغیرہ)کے حق کی سب سے زیادہ حمایت ڈیموکریٹس نے کی ہے۔ فیمنسٹ تحریکیں بھی ڈیموکریٹ حلقوں ہی سے پھوٹی ہیں۔ میساچوسٹس، نیویارک، نیوجرسی ،کیلی فورنیا، کولوریڈو،میری لینڈ وغیرہ میں ڈیموکریٹس مضبوط ہیں۔
”مائی باڈی مائی چوائس“ یا پاکستانی ورشن میں ”میرا جسم میری مرضی“ کا سلوگن انہی لبرل ، سیکولر فیمنسٹ تحریکوں نے تخلیق کیا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ خیال آگے بڑھانا ہے کہ عورت ہی اپنے جسم کی مالک ہے اور وہ جو چاہے اس کے ساتھ کرے۔ جس کے ساتھ سیکس کرے، جس طرح چاہے سیکس کرے (یعنی سٹریٹ یا لیزبین یا کچھ اور) ، جب چاہے بچہ پیدا کرے، جب چاہے ابارشن کرے، جس طرح کے چاہے کپڑے پہنے۔ قصہ مختصر کہ اپنی زندگی، اپنے جسم اور اپنی ذات کے ساتھ جو کچھ بھی وہ کرنا چاہتی ہے، کرے۔ یہ اس کا حق ہے، کسی دوسرے کو کوئی حق نہیں کہ وہ اس پر اثرانداز ہو۔
پاکستان میںمسئلہ یہ بھی ہے کہ” میرا جسم ، میری مرضی “کا نعرہ دینے والے نہ صرف لبرل فیمنسٹ ہیں بلکہ ان میں سے اکثر چند مخصوص این جی اوز سے وابستہ ہیں ، جن کی فنڈنگ امریکی یا یورپی ادارے کرتے ہیں۔ یہ حلقے نہایت بے تدبیری اور نالائقی سے خواتین کے حقیقی ایشوز اور مسائل کی طرف توجہ دلانے کے بجائے ایک خاص قسم کے مغربی تہذیبی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں ۔ ان کے عورت مارچ میں جا کر دیکھ لیا جائے کہ اکثر یت کا تعلق کس کلاس سے ہے؟یہ بھی کہ ٹرانس جینڈر کیسے جوش وخروش سے اس کا حصہ بنتے ہیں؟ واضح طور پر پاکستانی لوئر مڈل کلاس، مڈل کلاس اور لوئر کلاس اس کا حصہ نہیں ہوتی۔ مذہب بیزاری ، خاندانی روایات سے بغاوت ان کا بنیادی جز ہے اور اور مشرقی اسلامی تہذیب ان کا ہدف۔
ہمارے ہاں خواتین کے مسائل بہت سے ہے، کوئی احمق ہی ان کا انکار کرے گا۔ ملازم پیشہ خواتین کے مسائل بہت سے ہیں، گھر بیٹھی خواتین کو بھی حقوق نہیں ملتے۔ موروثی جائیداد میں حصہ دلانا بذات خود ایک بڑا چیلنج ہے۔ بہت سے روایتی زمیندار گھرانوں میں بیٹیوں ، بہنوں کو جائیداد دینے کے بجائے ان سے لکھوا لیا جاتا ہے کہ اپنے بھائیوں کوحصہ تحفے کے طور پر دے دیا۔ یہ ہر اعتبار سے غلط اور غیر شرعی ، غیر قانونی ہے۔
میری ذاتی رائے میں حق مہر معاف کرانے کی دستاویز کو تو کسی بھی صورت میں تسلیم کرنا ہی نہیں چاہیے۔ عورت اگر چاہے بھی تو اس کا حق مہر معاف نہیں ہونا چاہیے۔، اسی طرح موروثی جائیداد میں حصہ آٹو میٹک طور پر اسے منتقل ہوجانا چاہیے۔ خواتین کی صحت کے حوالے سے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ آج بھی حمل کے موقعہ پر بہت سی بچیاں اپنی زندگی خطرے میں ڈالتی ہیں۔ غربت، عدم معلومات اور دیگر مسائل کی وجہ سے بے شمار خواتین حمل کے دوران مناسب خوراک نہیں لے سکتیں،نتیجہ کمزور ذہن والے بچوں کی پیدا ئش کی صورت میں نکل رہا ہے۔ اس سب کچھ کی طرف ریاستی توجہ مبذول کرانی چاہیے ۔
کام کی جگہ پر ہراسمنٹ آج بھی بڑا ایشو ہے۔ اب کچھ اداروں نے سخت قوانین بنا دئیے ہیں، مگر بہت کچھ مزید کرنا پڑے گا۔ ملازم پیشہ خواتین کے لئے دفتر پہنچنا ایک بڑا ایشو ہے۔ ان کے لئے کبھی کسی حکومت نے علیحدہ ٹرانسپورٹ چلانے کی زحمت نہیں کی۔ آسانی سے روٹین میں اور خاص طور سے دفاتر آنے جانے کے وقت میں لیڈیز اونلی پنک بسیں، وین چلائی جاسکتی ہیں۔
یہ ایک مغالطہ ہے کہ” میرا جسم میری مرضی“ سے مراد عورت کو تشدد، ظلم اور زیادتی سے محفوظ بنانا ہے۔ نہیں یہ ایک دھوکا ہے۔میرا جسم میری مرضی کا ایک خاص تناظر اور خاص مفہوم ہے۔ آپ اس سے انکار کرنا چاہیں بھی تو نہیں کر سکتے۔ الفاظ اور اصطلاحات کا وہی مفہوم ہوتا ہے جو دنیا بھر میں رائج ہوچکا ۔ پاکستان میں یہ اس لئے بھی غلط ہے کہ ہمارے قوانین کسی عورت کو اپنے جسم پر اپنی مرضی چلانے کی مطلق اجازت نہیں دیتے۔ اگر کوئی خاتون چاہے بھی تو کسی سے غیر قانونی طور پر جسمانی تعلقات نہیں قائم کر سکتی۔ یہ قانونی طور پر جرم ہوگا اور سخت سزا مل سکتی ہے۔ اسی طرح نامناسب کپڑے پہننے کی بھی اجازت نہیں۔ ایسا نہیں کہ کوئی خاتون اپنے جسم پر اپنی مرضی سے نیم عریاں لباس پہن لے۔ مغرب میں تو یہ روا ہوگا، پاکستان میںعوامی ردعمل ایک طرف ، قانونی طور پر بھی ایسا کرنے کی اجازت نہیں۔
پاکستانی مذہبی حلقے یا رائٹ ونگ والے خواتین کے مسائل دور کرنے کے حامی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہماری بچیوں پر کسی بھی صورت میں ظلم، تشدد نہ ہو ، وہ آرام اور سکون سے اپنے گھروں میں رہیں اور چاہیں تو اپنے گھر کی معاشی کفالت کے لئے باہر بھی جائیں مگر یہ سب کچھ ڈیسنٹ لباس اور اچھے اسلامی مشرقی طرز کے مطابق ہو۔ ہمارا ماننا ہے کہ مرد ہو یا عورت اس کے جسم پر سب سے زیادہ اس کے تخلیق کار یعنی اس کے رب کا حق ہے۔ اسے زندگی رب کے احکامات کے مطابق ہی گزارنی چاہیے۔ یہ بات میرے جیسے لوگ نہ صرف اپنی بیٹی بلکہ اپنے بیٹوں کو بھی سمجھاتے ہیں۔
ہم اپنے بیٹوں کونظر کی حفاظت اورغیر خواتین کی عزت اپنی بہنوں کی طرح مقدم رکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔انہیں کہتے ہیں کہ وہ کبھی کسی خاتون پر ہاتھ نہ اٹھائیں، ظلم نہ کریں اور وقت آنے پر ان کے تمام حقوق خوش اسلوبی سے ادا کریں، یہی اللہ کا ان سے مطالبہ ہے۔ اپنی بیٹیوں سے ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے، امہات المومنینؓ اور بی بی خاتون جنت جنابہ سیدہ فاطمہ ؓ کے طرز زندگی کی تقلیدکریں۔ ہمارے نزدیک” میرا جسم ، میری مرضی“ کے مجہول مغربی نعرے کے بجائے” ہماری زندگی اورہمارا سب کچھ رب کریم کے لئے ہے “کا سلوگن ہی اہم اور ترجیحی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر