اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی وزراء فردوس عاشق اعوان اور غلام سرور کے خلاف توہین عدالت کی درخواستوں پر سماعت کی اور فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا ہے ۔
کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی ۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عدالت میں موجود وفاقی وزراء سے کہا آپ کو احساس ہونا چاہیے کہ اپ کے بیان سے حکومت اور عدالتی کارروائی پر کیا اثر ہوگا؟آپ کے بیان کی وجہ سے حکومت پر سے عوام کا اعتماد متزلزل ہوا ہے ۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا غلام سرور خان صاحب آپ کے حلقے کے ووٹرز کتنے ہیں؟
غلام سرور خان نے جواب دیا دو لاکھ سے زیادہ ہیں،۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہاآپکی عزت بھی انہی ووٹرز کی وجہ سے ہے، عوام کا اداروں پر اعتماد ختم نہ کریں۔
غلام سرورخان نے جواب دیا میں نے اس طرح بات نہیں کی، میری ساری بات سیاسی تھی ۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں،آپ جب اپنے میڈیکل بورڈ سے متعلق لوگوں کو شبے میں ڈالیں گے تو پھر کیا ہوگا، آپ اس عدالت کو بتا دیں کہ کیا کوئی ڈیل ہوئی ہے، آپ بتائیں کہ جو میڈیکل رپورٹ حکومت نے جمع کرائی کیا وہ تبدیل کی گئی؟آپ وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں اور بہت ذمہ دار عہدے پر ہیں۔
غلام سرور خان نے کہا کہ میں چالیس سال سے سیاست میں ہوں، عدالتوں کی توہین بارے سوچ ہی نہیں سکتا، آپ نے ڈیل کا بیان دیا ہے، یہ عدالت اسی میڈیکل رپورٹ پر فیصلہ کرتی ہے۔
غلام سرور خان نے کہا میں نے تو میڈیکل رپورٹ پر شک کا اظہار کیا تھا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ کہاآپ کو اندازہ نہیں کہ جو بیان آپ نے دیا اس کا آپکی حکومت اور عدالت پر کیا اثر پڑے گا؟ آپ اپنی حکومت پر عوام کا اعتماد ختم کر رہے ہیں، آپ اگر اس کیس کا سامنا کرنا چاہتے ہیں تو اس عدالت کو بتائیں؟
غلام سرور خان نے کہا اس میں تو توہین عدالت کی بات ہی نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہاپھر عدالت آپکو شوکاز نوٹس جاری کر رہی ہے اس کا جواب جمع کرائیں،عدالت آپ کو سمجھا رہی ہے اور آپ پھر وہی بات کر رہے ہیں،نواز شریف کے کیس کی اپیل ابھی عدالت میں زیر سماعت ہے،آپ سیاست کریں لیکن عدالت میں زیر سماعت کیسز پر تبصرہ نہ کریں، اس عدالت نے آپکو موقع دیا تھا لیکن آپ کیس کا سامنا کرنا چاہتے ہیں تو کریں۔
غلام. سرور خان نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی اور کہامیں غیر مشروط معافی مانگتا ہوں، کیس کا سامنا نہیں کرنا چاہتا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا عالتی فیصلے تاریخ میں یاد رکھے جاتے ہیں اور تاریخ انکا احتساب کرتی ہے۔
غلام سرور خان کے وکیل نے کہاعوام کی دل آزاری ہوئی تو اس پر بھی غیر مشروط معافی مانگتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا اگر وفاقی وزیر یہ کہے کہ یہ سارا ڈرامہ ہو رہا ہے، تو اثر عدالت پر پڑتا ہے،عدالت نے تو حکومتی میڈیکل رپورٹ کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔
عدالت نے غلام سرور خان اور فردوس عاشق اعوان کی غیر مشروط معافی پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ دونوں کیسز کی سماعت 25نومبر تک ملتوی کردی گئی ۔
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ