وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یادداشت کی تختی پر جگہ جگہ کچھ نقش مٹنے لگے ہیں۔ چہرہ جگمگاتا ہے تو نام بجھ جاتا ہے، واقعہ یاد آئے تو سنہ اور مقام خلط ملط ہو جاتے ہیں۔ بڑھوتری کی منزل پر ایسا ہونا غیرمعمولی نہیں لیکن آپ کے نیاز مند کے لئے یہ مرحلہ بھی کچھ تیز قدمی سے آن پہنچا۔ خیر، گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا۔ اور وہ جو ’اک حسرت تعمیر‘ کا قصہ تھا، وہ اب بھی آنے والوں کی امانت قرار پایا۔ ہماری نسل کا مادہ تاریخ ’شکست خواب‘ ہی برآمد ہوا۔ اس صدی کے ابتدائی برسوں میں سردیوں کی ایک شام علی افتخار جعفری اور ضیا الحسن نے غریب خانے کو عزت بخشی۔
مرحوم علی افتخار خود صاحب کمال تھا سو اسے اہل ہنر کے اعتراف میں کوئی نفسیاتی جھجک نہیں تھی۔ وہ شام ضیا الحسن کی (تب) بیس سالہ شعری ریاضت کے حاصل مجموعے ’آدھی بھوک اور پوری گالیاں‘ کے نام رہی۔ تیکھے استعارے، کٹیلی سطریں اور دمکتے اشعار۔ ضیا الحسن بے شک عہد حاضر کے نمائندہ شاعر ہیں۔ تاہم مجھ کم نظر پر ان کی کتاب کے عنوان کی معنویت اب کھلی ہے۔ تفصیل کے لئے قومی معیشت، عالمی مالیاتی اداروں سے معاملت اور عام شہری کی قوت خرید پر توجہ فرما لیجیے۔
پاکستان میں ہر طالب علم ابتدائی درجوں ہی میں اس بیان کو حرز جان بنا لیتا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ آج اس بیان کا کچھ جائزہ لیا جائے۔ پاکستانی معیشت میں زرعی شعبہ کل جی ڈی پی کا 22.67 فیصد ہے اور ملک کی 42.3 فیصد افرادی قوت زراعت سے وابستہ ہے۔ گندم، چاول، گنا اور کپاس ہماری چار بنیادی نفع آور فصلیں ہیں۔ اصولی طور پر دنیا کی پانچویں بڑی آبادی کی غذائی ضروریات اور زرعی معیشت کے تقاضوں کے مطابق ہماری فی ایکڑ پیداوار کم از کم اوسط عالمی معیار کے قریب ہونی چاہیے۔ تاہم دنیا میں فی ہیکٹر اوسط زرعی پیداوار 4 میٹرک ٹن ہے اور پاکستان میں یہ شرح صرف 2 میٹرک ٹن ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ زراعت وسیع رقبے سے براہ راست تناسب رکھتی ہے۔
عالمی سطح پر زرعی شعبے میں چار ممالک سرفہرست ہیں۔ چین، بھارت، امریکا اور برازیل۔ ان چاروں ممالک کا رقبہ پاکستان سے بہت زیادہ ہے۔ دوسری طرف کسی ملک میں قابل کاشت اراضی کے حجم اور اس اراضی کے لیے آب پاشی کی سہولیات میں تناسب اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان میں صرف 28 فیصد قابل کاشت اراضی تک آبپاشی کی سہولت موجود ہے۔ دوسری طرف بھارت میں قابل کاشت اراضی کے 80 فیصد حصے تک پانی کی رسائی موجود ہے۔ پاکستان میں عمومی بلند درجہ حرارت کے باعث کاشت کاری کے لیے زیادہ پانی درکار ہوتا ہے۔ کاشت کار قدرتی آب پاشی کی عدم موجودگی میں ٹیوب ویل پر انحصار کرتے ہیں لیکن بجلی کی فراہمی میں بار بار تعطل بھی آتا ہے اور بجلی کی قیمت بھی کاشت کار کی استطاعت سے زیادہ ہے۔ آب پاشی کے ناقص بندوبست کے باعث ہر برس لاکھوں ٹن قابل استعمال پانی بحیرہ عرب میں ضائع ہو جاتا ہے۔
کاشت کاری کے جدید طریقوں سے فائدہ نہ اٹھانا بھی زرعی پیداوار میں کمی لاتا ہے۔ 60 کی دہائی کے بعد زرعی ٹیکنالوجی میں قابل ذکر بہتری نہیں آئی اور معیاری بیج دستیاب نہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ کھیت سے منڈی اور بندرگاہ تک فصل پہنچانے میں آدھی سے زیادہ زرعی یافت ضائع ہو جاتی ہے۔ ماضی میں زرعی اصلاحات کا بہت غلغلہ تھا لیکن 1952، 1959 اور 1972 کی زرعی اصلاحات محض زبانی جمع خرچ ثابت ہوئیں بلکہ لاکھوں ایکڑ اراضی سرکاری اہلکاروں اور مراعات یافتہ طبقے میں بطور استمراری جاگیر بانٹی گئی۔
نفع آور فصلوں پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے۔ کپاس کی فی ہیکٹر پیداوار میں چین پہلے، بھارت دوسرے اور امریکا تیسرے نمبر پر ہے۔ چین میں کپاس کی فی ہیکٹر پیداوار 1900 کلوگرام ہے جبکہ پاکستان اتنے رقبے سے 445 کلوگرام کپاس پیدا کرتا ہے۔ چاول کی پیداوار میں چین پہلے، بھارت دوسرے اور انڈونیشیا تیسرے نمبر پر آتے ہیں۔ چین میں چاول کی فی ہیکٹر پیداوار 7.1 میٹرک ٹن ہے اور پاکستان میں یہ پیداوار صرف 3.8 میٹرک ٹن ہے۔ گنا پیدا کرنے میں برازیل پہلے، بھارت دوسرے اور چین تیسرے نمبر پر ہے۔ برازیل ایک ہیکٹر رقبے سے 70 میٹرک ٹن گنا پیدا کرتا ہے اور پاکستان صرف 46 میٹرک ٹن۔ گندم کی پیداوار میں چین پہلے، بھارت دوسرے اور روس تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ چین ایک ہیکٹر زمین سے 58 میٹرک ٹن گندم اگاتا ہے، پاکستان میں گندم کی فی ہیکٹر پیداوار 32 میٹرک ٹن ہے۔
گزشتہ برس پاکستان میں غیر معمولی سیلاب نے تین کروڑ شہریوں کو متاثر کیا۔ وسیع منطقوں میں کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ لہٰذا آنے والے مہینوں میں خوراک درآمد کرنا پڑے گی۔ کسان اگلی فصل کے لیے بیج اور کھاد کہاں سے خریدے گا۔ ہمارے ملک کا رقبہ کرہ ارض کے کل زمینی رقبے کا 0.7 فیصد ہے جبکہ ہماری آبادی دنیا بھر کی آبادی کا 2.8 فیصد ہے۔ ہمیں کس حکیم نے مشورہ دیا تھا کہ 3 کروڑ چالیس لاکھ کی آبادی کو صرف ستر برس کے عرصے میں 23 کروڑ 30 لاکھ تک لے جائیں جب کہ زرخیز زرعی زمینوں پر بلا روک ٹوک امرا کی رہائشی بستیاں آباد کی جا رہی ہیں۔ قومی سطح پر کل بچت کا 88 فیصد حصہ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں منجمد کیا جا رہا ہے۔
آئندہ انتخابات میں جائیداد کی خرید و فروخت سے راتوں رات امیر ہونے والے امیدواروں کی تعداد گن لیجیے گا۔ پراپرٹی ڈیلر نے ہماری قوم ہی کو یرغمالی نہیں بنایا، ہماری سیاست بھی رہن رکھی جا چکی ہے۔ جسے ہزاروں ایکڑ زرعی اور ہزاروں کنال شہری اراضی کی طلب ہو وہ دستور کو در خور اعتنا نہیں سمجھتا، مقامی پٹواری اور احتساب کے چیف کمشنر صاحب بہادر کی نظر التفات کا طالب ہوتا ہے۔ ضیا الحسن نے ٹھیک کہا تھا۔
گریہ ہی نہیں اک در و دیوار کا دشمن
اس خانہ خرابی کے ہیں اسباب بہت سے
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر