نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بھارت کو مذاکرات کی پیشکش۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیراعظم شہباز شریف نے بھارتی وزیراعظم کو سنجیدہ اور مثبت مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ عرب میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کا دورہ سب سے کامیاب ثابت ہوا، سعودی عرب اور یو اے ای کے ساتھ منفرد تاریخی تعلقات ہیں۔ وزیر اعظم کی یہ بات اپنی جگہ بجا اور درست ہے کہ ہمارے عرب ممالک سے برادرانہ تعلقات ہیں ، ان کو مضبوط ہونا چاہئے مگر وزیراعظم میاں شہباز شریف نے بھارتی ہم منصب کو مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی کو سنجیدہ اور مثبت مذاکرات کی دعوت دیتا ہوں۔ یہ ٹھیک ہے کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ، سو جنگیں لڑ کر بھی مذاکرات کی میز پر آنا ہوتا ہے، اصولی طور پر وزیر اعظم کی یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ پاکستان اور بھارت کو فضول کی کشمکش اور مخاصمت سے نکلنا ہوگا اور دونوں ملکوں کو عوام کی ترقی کے لیے کام کرنا ہوگا، اگر بھارت اپنا رویہ تبدیل کرکے مذاکرات کرے تو ہمیں تیار پائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بھارت ایسا کرنے کیلئے تیار ہے؟۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے بھارت کو مذاکرات کی دعوت پر جواب میں ترجمان بھارتی وزارت خارجہ ارندام باغچی نے پریس بریفنگ میں کہا کہ بھارت ہمیشہ سے پاکستان کے ساتھ معمول کے ہمسایہ تعلقات چاہتا ہے لیکن ان تعلقات کیلئے سازگار ماحول ہونا چاہیے، سازگار ماحول میں دہشت، دشمنی یا تشدد نہ ہو۔ بھارت کی طرف سے آنے والا جواب خیر سگالی کا نہیں بلکہ دہشت ، دشمنی اور تشدد کے الفاظ وہ پاکستان پر لگا رہا ہے حالانکہ کشمیر میں مسلم دشمنی ، دہشت گردی اور تشدد بھارت 75سالوں سے خود کرتا آ رہا ہے ۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے نریندر مودی کو مذاکرات کی دعوت پر وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس کا کہنا ہے کہ اس وقت بھارت سے مذاکرات کا ہم تصوربھی نہیں کر سکتے ،کشمیریوں کی قربانیوں کو پس پشت ڈال کر بھارت سے کوئی بات نہیں کی جا سکتی۔ بھارت اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے بھاگ کر کشمیر میں جبری قبضے کی کوشش کر رہا ہے ،اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھارت پر دبائو بڑھائے۔ سردار تنویر الیاس خان ایک محب وطن کشمیری اور صاحب بصیرت سیاستدان ہیں، ان کی بات پر توجہ کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں جاری اقتدار کی کشمکش میں غریب کچلے جا رہے ہیں ، مہنگائی نے غریب کا جینا دو بھر کر دیا ہے، محروم اور پسماندہ علاقوں میں صورتحال ازاں بد تر ہے۔ کہنے کو وسیب میں سیکرٹریٹ بن گیا ہے مگر کوئی مسئلہ حل نہیں ہو رہا، محرومی نے مزید پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ وسیب کی محرومی کے حوالے سے سید یوسف رضا گیلانی اور مخدوم شاہ محمود قریشی کے ادوار کا موازنہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مخدوم شاہ محمود قریشی وسیب کے حصے کا قلیل بجٹ حاصل کر سکے مگر وہ بھی خرچ نہ ہو سکا۔ ملتان میں اس بات پر تاسف کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے سے چند روز قبل پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے سابق ایم این اے شاہ محمود قریشی اور ان کے بیٹے سے ہاتھ کر دیا، ان کے آبائی حلقوں کے 55 کروڑ کے ترقیاتی فنڈز اٹھا کر گجرات میں جاری ترقیاتی منصوبوں کو منتقل کر دئیے۔ تفصیل اس طرح ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے سے ایک ماہ قبل ایم ڈی اے ان 55 کروڑ روپے کی ترقیاتی سکیموں کے ٹینڈرز بھی جاری کر چکا ہے، جب ورک آرڈر جاری کرنے کی نوبت آئی تو ایم ڈی اے انتظامیہ کو پتہ چلا کہ یہ فنڈز تو اٹھا لئے گئے ہیں اور یہ بھی دیکھئے کہ جب یہ معاملہ شاہ محمود قریشی کے علم میں آیا تو انہوں نے پرویز الٰہی کے سامنے یہ مسئلہ اٹھایا اور ساتھ ہی اس زیادتی پر احتجاج کیا اس پر پرویز الٰہی نے ان کو یہ فنڈز دوبارہ جاری کرنے کا کہہ کر مطمئن کر دیا۔ عمران خان کے نامزد کردہ وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے لاہور میں خاتم النبیینؐ یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا ہے۔ خاتم النبیینؐ یونیورسٹی کا قیام بہاولپور میں ہونا چاہئے، یہ کیا بات ہوئی کہ ہر یونیورسٹی لاہور میں ہو، تمام علاقوں کو برابر سہولتیں ملنی چاہئیں۔ اسلام آباد ، پنڈی کی خوش قسمتی کہ اسے وفاقی دارالحکومت مل گیا، وہاں بہت زیادہ یونیورسٹیاں ہیں مگر پنجاب کے دیگر اضلاع میں اس طرح کی صورتحال نہیں ہے۔ ایک تجزیہ کے مطابق وسیب کے تمام اضلاع میں یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں کی تعداد صرف ایک شہر لاہور کے برابر تو کیا اس کا نصف بھی نہیں ۔ یہ فرق بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے، اس کو ختم ہونا چاہئے۔ وسیب کی محرومی کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جس پر مقتدر قوتوں کو غور کرنا چاہئے۔ یہ مسلمہ اصول ہے کہ ترقی یافتہ علاقوں کی ترقی کو موقوف کر کے پسماندہ علاقوں کو ترقی دی جاتی ہے مگر یہاں نظام الٹا ہے۔ سرائیکی وسیب کے تمام منصوبے ٹھپ ہو چکے ہیں۔ وسیب کا ہر نوجوان پریشان ہے، لوگ بھوک، بیماری اور بیروزگاری سے خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں، مہنگائی سے تنگ وسیب کے لوگ گردے تک بیچنے پر مجبور ہیں، ابھی گزشتہ روز فورٹ عباس کے ایک نوجوان کی گردے بیچنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے، نوجوان کی باتوں سے دل دہل جاتا ہے کہ سات دریائوں کی وہ سرزمین جہاں اناج کی کوئی کمی نہیں ہے اور پیداوار اتنی زیادہ ہے کہ حکومت اُسے سنبھال نہیں سکتی، اس کے باوجود لوگ افلاس کا شکار ہیں تو اس کی وجوہات کیا ہیں؟۔ سرائیکی وسیب کو کب تک محروم رکھا جائے گا؟ اس سوال کے علاوہ ایک اور سوال بھی ہے کہ سرائیکی وسیب کے بے زبان ، گونگے ارکان اسمبلی کب تک خاموش رہیں گے؟ ۔

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author