نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بےنظیرکو کھوچکےکپتان کو نہیں کھوسکتے شکر خدا کا کپتان محفوظ ہیں||فہمیدہ یوسفی

کپتان عمران خان پر ناکام قاتلانہ حملے نے اس وقت ملکی سیاست میں جاری طوفان کی بپھری لہروں کو مزید بپھرادیا ہے ۔سمجھ سے باہر ہوتا جارہا کہ آخر یہ طوفان کی شدت کب کم ہوگی ، کب ہماری سیاسی لیڈرشپ عقل کو ہاتھ لگائیگی یا اپنی اپنی انا کی خاطر خدانخواستہ ملک کی سلامتی کو داؤپر لگادیگی۔

فہمیدہ یوسفی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس افسوسناک واقعہ کی پر ہر جانب سے چاہے قومی سطح پر ہو یا پھر عالمی سطح پر شدید  مذمت کی جارہی ہے۔ ہر طرف سے سوال اٹھ رہے ہیں شکوک وشہبات کا اظہار  کیا جارہا ہے ۔

دوسری جانب تحریک انصاف کی سینیر قیادت کی جانب سے فوری طور پر اس حملے کی ذمہ داری وزیراعظم شہباز شریف،وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنااللہ اور ایک سینیر فوجی افسر پر لگادیا ہے۔ جبکہ حیران کن طور پر وزیراعلی پنجاب اور مشیر داخلہ پنجاب اور آئی جی پنجاب کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا گیا۔

حملہ آور کی جانب سے  چلائی گئی گولیوں سے عمران خان کی ٹانگ زخمی ہوئی ہے  صد شکر ہے کہ ان کی حالت خطرے سے باہر ہے ۔

حملہ آور پولیس کی تحویل میں ہے اور اس کے وڈیو بیان سوشل میڈٖیا پر وائرل ہورہے ہیں ۔ حیرانی کی بات ہے اتنے ہائی پروفائل کیس کے حملہ آور کے ابتدائی بیانات سوشل میڈیا پر کس طرح سے وائرل ہوگئے ۔

تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان  کے نظریات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے ان کے دلائل یا نقطہ نظر پر بات کی جاسکتی ہے ۔

لیکن کیا سیاسی مخالف کواس کے نظریے کی وجہ سےبنیاد  بناکر کسی بھی قسم کے تشدد کا نشانہ بنادیا جائے یا اسے قتل  کرنے کی کوشش کی جائے ۔

یہ حملہ کسی صورت قابل قبول طرز عمل نہیں  ہے اوراس طرح کا کوئی بھی حادثہ ریاست  کی سلامتی پر سوال کھڑا کردیگی۔

عمران خان پاکستان کے سب سے مقبول رہنما ہیں اورعوام کی سپورٹ ان کے ساتھ ہے ۔ ان کی سیکورٹی کے ذمہ داران کو اس حادثے کے محرکات کو سنجیدگی سے دیکھںا چاہیے ۔ معاملے کی حساسیت کے پیش نظر تمام حقائق کو سامنے رکھ کر مستقبل کے لیے ان کی حفاظت  کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جانے چاہیے ۔

حکومت وقت کو بھی بہت زیادہ تحمل سے کام لینا چاہیے اور جس طرح سے آگے بڑھ کر وزیر اعظم ، نواز شریف، بلاول بھٹو  اور دوسرے سیاسی قیادت کی جانب سے اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے ۔کم از کم اس اندھیرے میں یہ امید کی ایک کرن ہے جہاں یہ سیاسی قیادت ایکدوسرے کو سننے دکھنے کی روادار نہیں ہے وہاں ایسی کسی بھی سازش کو کسی کے بھی کی خلاف یک زبان ہوکر مسترد کیا گیا ہے۔

پاکستان فوج کے حوصلے برداشت اور تحمل کو بھی داد دینا ہی ہوگی خان صاحب اور تحریک انصاف کی لیڈر شپ کی جانب سے مسلسل ان پر براہ راست انگلیاں اٹھائی جاتی رہی ہیں اور لگتا ہے کہ یہ تلخیاں کم نہیں ہونگی۔ لیکن ترجمان پاک فوج نے بھی عمران خان پر ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے ان کی جلد صحت یابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا،

یہاں یہ سوال بھی ہے اس بدترین سیکورٹی کی ناکامی پر تمام ذمہ داران سے سوال ہونے چاہیے ۔ پنجاب حکومت کو اپنی ناکامی پر سنجیدگی سےغور کرنا چاہیے ۔

اس وقت پاکستان میں سیاسی نفرتیں عروج پر ہیں ، اختلافات اور اختیارات کی اس جنگ میں کوئی بھی اپنی انا قربان کرنے کو تیار نہیں ہے ۔

دونوں جانب سے بیان بازی اور الزام تراشی کو روکنا ہوگا یہ ملک مزید کسی سانحے کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔

بے نظیر بھٹو کو ہم نے کھودیا ہے جس کے نتائج آج تک بھگت رہے ہیں ،خان صاحب کو کھونا کسی بہت بڑے نقصان کا باعث نہ بن جائے۔

خدا کے لیے اب ملک کا سوچیں حادثوں کا ڈرامہ مت کہیں اور نہ ہی اس پر سیاست کی دکانیں چمکائیں۔

خدا پاکستان کو اپنی حفاظت میں رکھے اور ہماری تمام سیاسی قیادت کو بھی اپنے حفظ وامان میں رکھے۔

یہ بھی پڑھیے:

About The Author