نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مطالعہ پاکستان انگریزی میں پڑھانے کا فیصلہ۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مڈل میں مطالعہ پاکستان کی کتاب کو انگریزی زبان میں تبدیل کر دیا گیا۔ اب چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعت کے طلبا مطالعہ پاکستان کی کتاب صرف انگریزی زبان میں پڑھیں گے۔پاکستان واحد ملک ہے جہاں تعلیم کو 75 سالوں سے تجربات کی نذر کیا جا رہا ہے، پاکستان میں انگریزی ، اردو، عربی ، فارسی وغیرہ میں تعلیم دی جاتی ہے، حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان تمام زبانوں کا پاکستان کی سرزمین سے کوئی تعلق نہیں، پاکستانی زبانوں پنجابی ، بلوچی ، پشتو، سرائیکی، پوٹھوہاری، براہوی ، کشمیری و دیگر کے بچوں کو تعلیم کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ سندھی واحد زبان ہے جو اپنے صوبے سندھ میں پڑھائی جاتی ہے۔ پوری دنیا کے ماہرین تعلیم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بچے کو اُس کی ماں بولی میں تعلیم ملنی چاہئے۔ مطالعہ پاکستان کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ مطالبہ پاکستان کی کتاب انگریزی میں تبدیل ہونے سے لاکھوں بچوں کا امتحان میں فیل ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے جبکہ ان اساتذہ کو یہ پتہ نہیں کہ غیر ملکی زبانوں میں تعلیم سے غریب کے بچے سپلیوں کا شکار ہوتے آ رہے ہیں، طبقاتی تعلیم کا عذاب الگ ہے، پاکستان میں ہر معاملے میں فوقیت انگریزی کو حاصل ہے ، اعلیٰ تعلیم انگریزی میں دی جاتی ہے ، انگلش میڈیم والے راج کر رہے ہیں جبکہ غریبوں کی اولادیں اردو میڈیم کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ سکیں۔ پنجاب حکومت نے صوبہ بھر کے نجی تعلیمی اداروں کے انتظام و انصرام کیلئے پنجاب پرائیویٹ ایجوکیشنل انسٹیٹیوشنز ریگولیٹری اتھارٹی (PPEIRA) کے نام سے ایک نئی اتھارٹی بنانے کا اعلان کیا ہے۔ سارا مسئلہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے ، حکومت اپنا بوجھ کم کرنا چاہتی ہے جبکہ تعلیم ،صحت ، روزگار حکومت کی ذمہ داری ہے ، حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ کرے اور ایسا نظام تعلیم وضع کرے جو کہ امیر اور غریب سب کے لئے برابر ہو جس سے پاکستانی تہذیب ، ثقافت اور زبانوں کو ترقی ملے۔ زبان کا تعلق زمین سے ہوتا ہے ، دھرتی کی زبان ہی زمین زادوں کی ماں ہوتی ہے اور وہی زبان اس خطے کی قومی زبان ہوتی ہے ، گملے میں اُگائی گئی کوئی بھی زبان قومی زبان کا درجہ حاصل نہیں کر سکتی ، اردو کی ترقی پر اعتراض نہیں لیکن امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہئے ، زبانیں معصوم ہوتی ہیں ، انسان اپنے ذہنی فتور سے انہیں نفرت کا ہتھیار نہ بنائے۔ پاکستان میں مادری زبانوں کی حالت ناگفتہ بہ کیوں ہے؟ کیا پاکستان میں بولی جانیوالی زبانیں کمتر ہیں یا ان کے بولنے و الوں میں کوئی کمی ہے؟ پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ پاکستان میں بولی جانیوالی زبانیں کسی بھی لحاظ سے کمتر نہیں،یہ دھرتی کی زبانیں ہیں اور ان کی جڑیں دھرتی میں پیوست ہیں، ان کے توانا اور مضبوط ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ حملہ آور اور بدیسی حکمران صدیوں سے ان زبانوں کو مٹانے کے در پے ہیں، اس کے باوجود یہ زندہ ہیں تو ان کی مضبوطی اور توانائی ان کو زندہ رکھے ہوئے ہے، جہاں تک بولنے والوں کی بات ہے تو بولنے والے تو مجبور ہیں، ریاست تعلیمی اداروں میں جو زبان رائج کرے گی وہ پڑھنے پر مجبور ہوں گے، یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بدیسی زبانوںکو آپ مسلط کر دیں اور جو دیس کی زبانیں ہیں ان کو آپ کچل کر رکھ دیں، اس سے بڑھ کر لسانی دہشت گردی کیا ہوگی؟ اس سے بڑھ کر لسانی تعصب کیا ہوگا؟ ۔ میں واضح بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی قومی زبانیں پاکستانی زبانیں ہیں، ان زبانوں کو علاقائی زبانیں کہنا ان کی توہین ہے، حکومت پاکستانی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دینے کیلئے فوری اقدامات کرے۔ یہ حقیقت ہے کہ جن زبانوںکے بولنے والوں کی تعداد قلیل ہو ، ریاستی امور میں بھی وہ زبان شامل نہ ہو، تعلیمی اداروںمیں بھی نہ پڑھائی جاتی ہو، وہ مٹ جاتی ہیں اور ختم ہو جاتی ہیں، لیکن دنیا میں ایسے ادارے بھی متحرک ہو چکے ہیں جن کی کوشش اور مقصد یہ ہے کہ کوئی ایسی زبان جس کے بولنے والے چند ہزار یا چندسو ہی کیوںنہ ہوں کو زندہ رکھنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ لیکن ہمارے ہاں یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ پاکستانی زبانوں کو بولنے والے کروڑوں کی تعداد میں اس کے باوجود پاکستان کے حکمران ان زبانوں کو ختم کرنے کے در پے ہیں۔ کسی بھی زبان اور ثقافت کے ختم ہونے کا مقصد خطے کی تاریخ و تہذب کا اختتام اور موت سمجھا جاتاہے لیکن ہمارے حکمرانوں کو اس کی پرواہ نہیں، حالانکہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں یہ واضح لکھا ہے کہ ماں بولیوں کا نہ صرف یہ کہ تحفظ کیا جائے بلکہ ان کو پھلنے پھولنے کے مواقع مہیا کئے جائیں۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کر رکھے ہیں مگر عملاًاس کے برعکس ہو رہا ہے،بحیثیت زبان کوئی بھی زبان بری نہیں ، تمام زبانیں قابل احترام ہیں، اردو سے کسی کو کوئی اختلاف نہیں لیکن یہی احترام اس سر زمین کی ان زبانوں کو بھی حاصل ہونا چاہئے جو اس دھرتی کی اصل وارث ہیں اور ہزار ہا سالوں سے انسانوں کے درمیان ابلاغ کے ساتھ ، محبت و اخوت کے رنگ بکھیر رہی ہیں ، اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرنا ہو گا کہ موجودہ پاکستان کے کسی بھی علاقے سے اردو کا تعلق نہ ہے ، یہ ہندوستان سے آئی ہوئی زبان ہے ، یہ زبان لکھنو ، رام پور اور حیدر آباد دکن وغیرہ میں مختلف زبانوں کے الفاظ کے ملاپ سے وجود میں آئی ، پاکستان کے کسی بھی علاقے کی زبان کلچر اور تہذیب سے اس کا تعلق نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ بھارت سے آنیوالے چند ایک فیصد لوگوں کی یہ ماں بولی ہے ، اسے اپنی آبادی کے مطابق اداروں سے حصہ پانے کا حق حاصل ہے لیکن یہ امرافسوسناک ہے کہ پاکستان میں سرکاری رُتبہ ملنے کے بعد اس زبان نے اردو بولنے والی مقتدر اشرافیہ کو خود فریبی کی حد تک احساس برتری میں مبتلا کر دیا ہے اور مقامی کلچر سے مفائرت پیدا کر دی ،اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت بلاتاخیر پورے ملک میں ابتدائی تعلیم ماں بولی میں رائج کرے۔ذرائع ابلاغ پر 60فیصد وقت ماں بولیوں کو دیا جائے ، پیمرا کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ پرائیویٹ ریڈیو اور ٹی وی چینل کو لائسنس جاری کرتے وقت اس بات کا پابند کرے کہ وہ پروگراموں کا بیشتر حصہ ماں بولیوں میں نشر کریں گے، سرکاری طور پر ماں بولیوں کو علاقائی زبانوں کے بجائے قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے ، ماں بولیوں کے فروغ کیلئے اگر حکومت اقدامات نہیں کرتی تو پھر کوئی ضرورت نہیں کہ تقریبات منعقد کی جائیں اور دنیا کے سامنے ڈھونگ رچایا جائے کہ ہم ماں بولیوں سے محبت کرتے ہیں۔

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author