نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا عمران خان کا لانگ مارچ حقیقی آزادی کی جدوجہد ہے؟…||محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی لاہور میں مقیم سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں،ان کے موضوعات میں سیاست ، حالات حاضرہ ،سوشل ایشوز،عسکریت پسندی اورادب شامل ہیں۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان ایک بار پھر کمر ٹھونک کر میدان میں اترنے لگے ہیں۔ انہوں نے لانگ مارچ کی تیاری شروع کر دی ہے اور توقع ہے کہ آئندہ دو ہفتوں کے دوران ہی وہ لشکر جرار لے کر اسلام آباد پر حملہ آور ہوں گے۔ ان کے قریبی ساتھی بیس سے چالیس لاکھ لوگ لے آنے کی خبر دے رہے ہیں۔ جواب میں وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنااللہ بھی اسی لب ولہجے میں دھمکیا ں دے رہے ہیں۔ وہ پچیس مئی کی طرز پر احتجاجی جلوسوں کو نہایت سختی سے کچلنے کا اشارہ دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ معاملہ اگلے روز ہوا جب وزارت داخلہ کا رانا ثنااللہ کی زیرقیادت اِن کیمرہ اجلاس ہوا۔ میں نے پہلی بار سنا کہ کسی وزارت کا اجلاس اِن کیمرہ ہوا ۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئی ایسی سخت ، خوفناک قسم کی پالیسیاں ڈسکس ہوئیں، جن کے بارے میں وہ نہیں چاہتے تھے کہ میڈیا میں ان کی بھنک بھی پڑے۔ اللہ ان پر رحم کرے ۔ اس سب میں عمران خان کا موقف اہم ہے ۔ انہوں نے اس لانگ مارچ کے لئے اپنی تمام تر قوت جھونکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ اسے’’حقیقی‘‘ آزادی کی جدوجہد قرار دے رہے ہیں، اگلے روز اپنے کارکنوں اور رہنمائوں سے خطاب کرتے ہوئے اسے جہاد قرار دیا اور ان سے ثابت قدم رہنے کا وعدہ بھی لیا۔ عمران خان کے تیور، اپنی سیاسی سرگرمی کو مذہبی ٹچ دیتے ہوئے جہاد قرار دینا اور ہر اعتبار سے اپنی سیاسی قوت کو مجتمع کر کے حکومت گرانے کے لئے ہلہ بول دینا تشویشناک ہے اور نہایت مضر ، نقصان دہ سیاسی رجحان قائم کرنا بھی۔عمران خان کا اسلام آباد کی طرف یہ پہلا حملہ نہیں ہے۔ وہ آج سے آٹھ برس قبل بھی اسی طرح اسلام آباد پر چڑھ دوڑے تھے، تب مولانا طاہر القادری انکے ہمراہ تھے۔ عمران خان نے کئی ماہ تک اسلام آباد میں دھرنا دئیے رکھا، مگر ان کا یہ دھرنا بری طرح ناکام ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ پشاور سکول کا سانحہ نہ ہوتا، جس کی آڑ لے کر انہیں دھرنا ختم کرنے کا موقعہ ملا تو ان کا دھرنا مایوس کن انجام تک پہنچ چکا تھا۔ آخری دنوں میں تو شرکت تین چار سو لوگوں تک پہنچ گئی تھی۔ پانامہ سکینڈل آنے کے بعد پھرعمران خان نے اسلام آباد پر یورش کا اعلان کیا، ان کا ارادہ شہر کا محاصرہ کر کے شٹرڈائون جیسی صورتحال پیدا کرنا تھا۔ عمران خان خود تو بنی گالہ سے نہیں نکل پائے تھے، پنجاب سے ان کی تنظیم بھی ٹھس ہوگئی، البتہ کے پی کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے اچھی کارکردگی دکھائی اور ان کی وجہ سے شدید ٹکرائو بنا اور ایسے حالات پیدا ہوئے کہ سپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی اور پانامہ کیس کی سماعت شروع ہوئی۔ عمران خان نے آخری لانگ مارچ چار ماہ قبل پچیس مئی کو کیا، جس میں وہ خیبر پختون خوا سے روانہ ہوئے، رات بھر سفر کر کے اسلام آباد پہنچے اور پھر پراسرار طور پر مختصر سی تقریر کر کے لانگ مارچ ختم کر دیا ، اس میں پنجاب کی تنظیم کی ایک بار پھر مایوس کن کارکردگی رہی، اگرچہ لاہور میں اکا دکا رہنمائوں نے انفرادی طور پر محنت کی ۔ عمران خان کے تازہ ترین لانگ مارچ کے اعلان کے حوالے سے چند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف کے نظریاتی اور عملی حامیوںکو چاہیے کہ ان کا تفصیل اور مدلل جواب دیں تاکہ عوام کو اندازہ ہوسکے کہ عمران خان کا اصل بیانیہ کن ستونوں پر استوار ہے؟ پہلی بات یہ کہ’’ حقیقی ‘‘آزادی کی جدوجہد سے کیا مراد ہے ؟کیا اسلام آباد یورش کر کے حکومت گرانے سے حقیقی آزادی مل جائے گی؟ مگر کیسے ؟ لاکھوں لوگ اکھٹے کر کے صوبائی حکومتوں کے تعاون سے اسلام آباد پہنچنا اور وہاں دبائو بڑھانا، حکومتی مشینری کو مفلوج کر دینا، اس حد تک کہ حکومت گر جائے … ایسا اگر ہوگیا تو پھر بار بار ہوتا رہے گا۔ کل کو عمران خان حکومت میں ہوں اور اس وقت کی اپوزیشن ایسا کرے تو پھر کیا ہوگا؟ عمران خان موجودہ حکومت کو امپورٹڈ حکومت کہتے ہیں۔ ان کا اپنا بیانیہ ہے، غلط یا درست، وہ ایسا کہتے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا موجودہ حکومت ملک وقوم کو عالمی قوتوںکا غلام بنا دینا چاہتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر اس کی وضاحت بھی عمران خان کریں کہ خارجہ امور اور نیشنل سکیورٹی کے حوالے سے ہر پالیسی میں ریاستی ادارے پوری طرح آن بورڈ بلکہ شامل ہوتے ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی سول وزیراعظم امریکہ، چین، انڈیا، سعودی عرب، ایران، افغانستان وغیرہ کے حوالے سے من مانی کرے اور اپنی مرضی سے ایسی پالیسی بنا ڈالے جس سے ملک وقوم کو نقصان ہو۔ ایسا ابھی تک نہیں ہوپایا۔ کیا عمران خان کے خیال میں پوری ریاستی پالیسی ہی غلط ہے اور کیا وہ اداروں کو بھی اس جرم میں حصہ دار سمجھتے ہیں؟اگر ایسا ہے تو انہیں پھر یہ بات صاف الفاظ میں کہنی چاہیے۔ یہ ممکن نہیں کہ سول حکومت اپنے طور پر ملک وقوم کو کسی دوسرے کا غلام بنا دے۔ غلامی کی طرف جانے یا اس سے چھٹکارا پانے میں اجتماعی ریاستی پالیسی کارفرما ہوتی ہے۔ سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ اس وقت ایسی کون سی ایمرجنسی آ گئی ، جس کے باعث عمران خان کو یہ انتہائی اقدام کرنے کی ضرورت پڑ گئی ؟ایسی کون سی حکومتی پالیسی ہے جسے وہ ملک وقوم کے لئے سخت خطرناک اور نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ عمران خان کو یہ بات واضح کرنی چاہیے؟ پچھلے چند ماہ موجودہ حکومت کے لئے مشکل رہے، آئی ایم ایف نے ناک کی لکیریں نکلوا کر معاہدہ منظور کیا، امریکی تعاون بھی نظر نہیں آیا، ہمارے دوست ممالک بھی کسی قدر فاصلہ پر رہے ۔ اب مگر صورتحال بدل گئی ہے۔ امریکی تعاون واضح ہے، بھارتی ماہرین امریکہ کی جانب سے ایف سولہ طیاروں کی اپ گریڈنگ کی منظوری پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ پیرس کلب، لندن کلب سے اربوں ڈالر قرضے کے کئی برسوں کے لئے ری شیڈول ہونے کی خبریں آ رہی ہیں۔ چین کے ساتھ بھی ایک بڑے معاشی پیکج کا معاملہ چل رہا ہے اور شائد سی پیک پر بھی کوئی تیزی نظر آئے۔ پاکستانی کرنسی بھی کئی ماہ کے بعد بہتر ہو رہی ہے ، امکانات ہیں کہ اسحاق ڈارڈالر کو دو سو روپے تک لے آئیں ۔ عالمی مارکیٹ میں پٹرول سستا ہونے سے مقامی سطح پر بھی قیمتوں میں کمی کا رجحان نظر آ رہا ہے۔ قطر سے بھی پرانے ریٹ پر ایل این جی گیس کی شپمنٹس ملنے کا امکان پیدا ہوا ہے،موجودہ صورتحال میں یہ کرشمے سے کم نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت کون سا ایسا فوری نوعیت کا بحران ہے جس کا خاتمہ عمران خان چاہتے ہیں؟ کیا حکومت گرائے جانے یا سیاسی عدم استحکام سے ہماری نیم جاں معیشت جس کے آئی سی یو سے باہر آنے کے امکانات پیدا ہوئے، کیا وہ پھر سے نہیں گر جائے گی ؟کیا خان صاحب کا ہدف یہی ہے ؟ سوال یہ ہے کہ عمران خان صاحب کے پاس پنجاب اور کے پی صوبائی حکومتیں ہیں، وہ یہاں پر فوکس کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کی حکمت عملی کیوں نہیں بناتے؟ کیا ان کے لئے بہتر نہیں کہ وہ اگلے چند ماہ کے لئے اسلام آباد کے بجائے لاہور میں وقت گزاریں اور پنجاب میں اپنی پارٹی کی تنظیم بنائیں جو نہ ہونے کے برابر ہے۔ سنٹرل پنجاب کے جن اضلاع میں وہ کمزور ہیں، وہاں پرکام کریں۔ جنوبی پنجاب کے فرسٹریٹیڈ عوام کو راضی کرنے کی کوشش کریں جن پر عثمان بزدار کی صورت میں انہوں نے ایک نالائق وزیراعلیٰ مسلط کیا تھا۔ عمران خان نے سیلاب زدگان کے حوالے سے خاصے مایوس کن ردعمل کا مظاہرہ کیا، وہ بہت دیر سے اس جانب متوجہ ہوئے۔ ابتدا میں وہ ایسے مایوس ہوئے جیسے یہ سیلاب وفاقی حکومت کے لئے سیاسی طور پر فائدہ مند ہو اور بطور کھلاڑی بارش کے باعث میچ ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ پھر انہوں نے ٹیلی تھون کئے اور اچھے خاصے فنڈز جمع کر لئے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ وہ فنڈز کو ضلع ڈی جی خان، راجن پورپر درست انداز میں خرچ کئے جانے کی حکمت عملی بنائیں اور اس کی نگرانی کریں۔ سندھ اور کے پی میں سیلاب زدگان کی مددبھی کرنی چاہیے۔ کیا ایسے برے حالات میں جبکہ ابھی تک لاکھوں سیلاب زدگان بے گھر ہیں، ایسے میں عمران خان کا تمام تر سیاسی قوت کے ساتھ اسلام آباد حملہ کر کے حکومت گرانے کی کوشش کرنا اخلاقی، سیاسی اور جمہوری طور پر مناسب ہے؟ اگر کسی طرح حکومت گر بھی جائے ، تب بھی ملک بھر میں عام انتخابات کا کوئی ماحول نہیں، دیہی سندھ میں الیکشن کرانے ممکن نہیں، ڈی جی خان ڈویژن اور کے پی کے بعض علاقوں میں بھی۔ ایسی صورت میں کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ سیاسی محاذ آرائی کو چند ماہ کے لئے ملتوی کر دیا جاتا؟ کیا عمران خان کی یہ سب جدوجہد ان کے ذاتی سیاسی ایجنڈے اور مفادات کے لئے ہے یا اس میں ملک وقوم کے لئے واقعی آزادی کا کوئی تصور موجود ہے؟کیا خان صاحب یہ سب کچھ اکتوبر میں اس لئے کر رہے ہیں تاکہ نومبر میں ہونے والی اہم تقرریوں میں اپنے آپ کو سٹیک ہولڈر بنائیں؟ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو ان سوالات کا مدلل اور جامع جواب دینا چاہیے۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

About The Author