ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” دیکھیے ایک بات ابھی سے بتا دوں، جو کام نہیں آتا، وہ نہیں کروں گی۔ ریفر کر دوں گی“
کمرے میں تین افراد، دو ادھیڑ عمر مرد اور ایک نوجوان لڑکی۔ انٹرویو چل رہا تھا۔
”جی آپ کی کوالیفیکیشن؟“
”ایم بی بی ایس“
”تجربہ؟“
”ہاؤس جاب چھ مہینے گائنی اور چھ مہینے میڈیسن“
”کس ہسپتال سے؟“
”سر گنگا رام ہسپتال لاہور“
”کیا کچھ کر لیتی ہیں؟“
”نارمل ڈلیوری چھوٹے آپریشن کے ساتھ، بچے دانی کی صفائی اگر بچہ ضائع ہو جائے تو۔ مریضوں کا معائنہ اور ابتدائی تشخیص“
”سیزیرین کر لیتی ہیں؟“
”جی نہیں“
”ڈلیوری میں اوزار لگانے کی اگر ضرورت پڑے تو؟“
”جی نہیں“
”کیوں؟ کیا سکھائے نہیں گئے؟“
”سکھائے گئے، لیکن ایک آدھ بار لگا لینے سے مہارت نہیں آ جاتی۔ میں بغیر سینئیر کی نگرانی کے کوئی ایسا کام نہیں کروں گی جس سے مریضوں کی جان خطرے میں پڑ جائے“
”تنخواہ لیں گی یا شیئر سسٹم میں آئیں گی؟“
”میرا خیال ہے کہ تنخواہ بہتر رہے گی“
”سوچ لیں، شیئر سسٹم میں ہر مریض پہ آپ کا شیئر بنے گا، ٹیسٹ کروانے میں بھی اور ہر طرح کے آپریشن میں بھی۔ بنیادی تنخواہ علیحدہ سے ملے گی“
”جی اور شاید یہ لالچ میرا ہاتھ پکڑ لے کہ میں مریض ریفر نہ کروں۔ تنخواہ لی تو وہ میرے ہاتھ باندھ نہیں سکے گی“
شادی کو پانچ مہینے ہو چکے تھے، حمل بھی ٹھہر چکا تھا۔ پڑھائی کے بعد دونوں ضروری کام فوراً نبٹا کر اب بوریت سے برا حال تھا کہ زندگی کبھی اتنے دن دیواروں کے پیچھے نہیں گزری تھی۔
یا اللہ، کتنی کتابیں پڑھوں، کتنا ٹی وی دیکھوں اور کتنا سوؤں؟ کھانا پکنے میں تو دیر نہیں لگتی، دو بندوں کا کھانا ہی کتنا ہوتا ہے؟ صفائی ہو چکی، کپڑے دھل کر استری ہو چکے، اب کیا کروں؟ اس وقت زکوٹا جن پردہ غیب میں تھا ورنہ کہتے، میں کیا کروں؟ کس کو کھاؤں؟ کوئی کام بتاؤ؟
دوستوں سے ذکر کیا تو کچھ اس قسم کے جواب ملے، ارے عیش کرو عیش شوہر کے ساتھ۔ بھئی حمل ہے، آرام شرام کرو۔ کھاؤ پیؤ، سوؤ، بنی ٹھنی رہو، یہی تو دن ہیں۔
کر لیا بھئی کر لیا سب، شوہر صبح دفتر روانہ، آ کر سو جاتے ہیں تو عیش شام کے چھ بجے شروع ہو گا۔ اس سے پہلے کیا کروں؟ حمل ہو گیا نا، کھا پی رہی ہوں، لیکن اس کے علاوہ کیا کروں؟
کیا کروں؟ کیا کروں؟ کیا کروں؟
دماغ کی سکرین پر ہر وقت یہ سوال چلتا رہتا۔
اخبار پڑھنے کا اتنا شوق کہ چھوٹے موٹے اشتہار بھی نہ چھوڑتے۔ ایک دن اشتہار نظر سے گزرا جسے پڑھ کر ہم اچھل پڑے۔ زور سے نہیں، آرام سے، حمل تھا نا آخر۔
شافی ہسپتال، دینہ
ضرورت برائے لیڈی ڈاکٹر
گائنی کا کام تسلی بخش طریقے سے جانتی ہو۔
تنخواہ۔ دس ہزار روپے، رہائش فری۔
دس ہزار۔ باپ رے اتنی اچھی تنخواہ، اس سے تو ہم گاڑی خرید سکتے ہیں۔
(گاڑی نہیں تھی ہمارے پاس اور پبلک ٹرانسپورٹ پہ ہی آسرا تھا۔ یاد رہے کہ سونا ساڑھے تین ہزار روپے تولہ تھا اور ڈاکٹر کی سرکاری تنخواہ اٹھائیس سو روپے تھی)
بھلا کتنے ماہ کی تنخواہ کافی ہو گی؟ آٹھ ماہ؟ اسی ہزار روپے۔ واہ سیکنڈ ہینڈ تو آ ہی جائے گی۔ رہائش مفت میں دے رہے ہیں سو شوہر کی تنخواہ میں گھر چلائیں گے اور ہم اسی ہزار میں گاڑی خرید لیں گے، بچے کے بعد گاڑی تو چاہیے ہو گی نا۔ کتنے مہینے کی تنخواہ جوڑنی ہو گی۔ نومبر، دسمبر، جنوری، فروری، مارچ، اپریل، مئی۔ یہ ہوئے سات مہینے، مئی سے پہلے گاڑی لینی چاہیے، ڈلیوری مئی میں ہے نا۔ لیکن سات مہینوں کی تنخواہ بنے گی ستر ہزار۔ چلو ستر ہزار والی لے لیں گے، بھلے کچھ زیادہ پرانی ہو۔ چلے گی تو سہی۔ چلتی کا نام گاڑی۔
دیکھیے ہنسیے نہیں، شیخ چلی سے کسی صورت کم نہیں تھے ہم سو ہماری خود کلامی جاری رہی۔
لیکن۔ ہاؤس جاب تو صرف چھ مہینے کیا ہے، سیزیرین کرنا نہیں آتا، اوزار لگانے بھی نہیں آتے۔ ہاں نارمل ڈلیوری اور چھوٹا آپریشن کرنا بہت اچھا آتا ہے۔ ڈی اینڈ سی بھی کر لیتے ہیں۔
چلو بھئی پوچھ لیتے ہیں جا کر، جھوٹ تو ہم بولتے نہیں، وہ جو پوچھیں گے سچ سچ بتا دیں گے۔ پھر ان کی مرضی، نوکری پہ رکھیں یا نہ رکھیں!
میاں صاحب جونہی گھر آئے، ہم نے لہک کر بتایا کہ ایک نوکری ڈھونڈھ نکالی ہم نے۔ اتنی جلدی کاہے کی، کچھ عرصہ گھر بیٹھ کر آرام کرو۔ دیکھو ہاؤس جاب کے فوراً بعد تمہاری شادی ہو گئی۔ ساڑھے پانچ برس کی پڑھائی اور ایک سال ہاؤس جاب، یہ ہوئے ساڑھے چھ سال تو اب کچھ عرصہ تو گھر میں رہو۔ حمل بھی ہے۔
دیکھیں جی گھر بیٹھنے والوں میں سے ہم نہیں، ہمیں ہے کام کی عادت اور اب اتنا آرام ہمیں کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ رہا حمل تو کیا ہوا؟ کل کو بچہ ہو جائے گا تو زندگی کے یہ سلسلے تو چلتے ہی رہیں گے۔
سوچ لو، وہ بولے۔
سوچ لیا اور دیکھیں ابھی ہمارے پاس گاڑی بھی نہیں۔ کل کو بچہ ہو گا تو کیسے سفر کریں گے۔ یہاں تنخواہ اچھی ہے۔ جمع کر کے گاڑی لے لیں گے۔
ہم نے تقریر کی ساری صلاحیتوں سے بھرپور کام لیا اس وقت۔
شوہر منگلا کینٹ میں پوسٹڈ تھے۔ شام کو ہم دونوں دینہ شافی ہسپتال جا پہنچے۔
چار منزلہ بوسیدہ سی عمارت دیکھ کر دل بیٹھ گیا لیکن اتنی جلدی ہم حوصلہ کہاں ہارتے تھے۔ سو اندر جا گھسے اور بتایا کہ ہم اشتہار دیکھ کر آئے ہیں۔
انٹرویو شروع ہوا جس کی روداد ہم نے اوپر لکھی ہے۔
لاہور گنگا رام ہسپتال میں ہاؤس جاب کرتے ہوئے ہم بے شمار ایسے مریض دیکھتے تھے جنہیں مضافات میں بنے پرائیویٹ ہسپتال موت کی دہلیز پر پہنچا کر بڑے ہسپتال کو ریفر کرتے۔ ان میں سے کچھ بے چاریاں ہسپتال کے دروازے پر دم توڑتیں اور بہت سی آپریشن تھیٹر کی میز پر لیٹ کر زندگی کی بازی ہار جاتیں۔ مسئلہ ایک ہی تھا کہ پرائیویٹ ہسپتال بزنس کے اصولوں پر چلتا ہے، خدمت کے نہیں۔
مریض کی جیب سے پیسہ نکلے گا تو ہسپتال کے بجلی، پانی، اور گیس کے بل دیے جائیں گے، سٹاف کی تنخواہیں نکالی جائیں گی، بلڈنگ کا کرایہ جائے گا۔ سو اس سب میں وہ ہسپتال ہسپتال نہیں رہتا ایسی مارکیٹ بن جاتا ہے جہاں کا مالک نہیں چاہتا کہ آیا ہوا گاہک کہیں اور جائے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ یہ بھول جاتا ہے کہ مار کیٹ اور ہسپتال میں کیا فرق ہے؟
ارے بھائی اگر ہر صورت میں گاہک گھیرنا ہے تو سبزی بیچ لو، کپڑے کی دکان ڈال لو، گوشت کا کاروبار کر لو مگر انسانی جان کا کھیل مت کھیلو۔ جو کام نہیں آتا، اسے پیسے کے لالچ میں کر کے لوگوں کو قتل مت کرو۔
ہم نے انٹرویو میں بتا دیا کہ کسی بھی منافع کے لالچ میں ہم کسی ایسے مریض کو نہیں دیکھیں گے جس کے متعلق ہمیں شک ہو کہ بساط سے باہر ہے۔ اب آپ کی مرضی۔
دونوں صاحبان نے ہماری بات تحمل سے سنی، ایک کے ماتھے پہ کچھ شکنیں تھیں مگر دوسرے صاحب کے منہ پہ دبی دبی مسکراہٹ تھی۔
”آپ کو پتہ ہے کہ اگر ہم نے آپ کو منتخب کر لیا تو آپ کو ہسپتال میں ہی رہنا ہو گا“
”رہ لیں گے“ ترنت جواب!
”ہسپتال کی چھت پہ دو کمرے ہیں۔ ایک میں تین نرسیں رہتی ہیں دوسرا آپ کو مل جائے گا۔ ساتھ میں چھوٹا سا کچن اور باتھ روم بھی ہے“
ہائیں، چھت پہ بنا ہوا ایک کمرہ۔ ہم سوچ میں پڑ گئے۔ نئی نئی شادی، حمل، منگلا کینٹ کا خوبصورت بنگلہ، نوکر، شام کو میس یا کلب کی عیش۔ کیا ان سب پہ لات مار دوں؟ اپنے آپ سے سوال کیا۔
دیکھو یہاں کام کر کے تم تنخواہ جمع کر کے گاڑی خرید سکتی ہو۔ میاں کی تنخواہ سے گھر ویسے ہی چلتا رہے گا جیسے اب چل رہا ہے۔ سو مقصد پہ نظر رکھو، کیا کرنا ہے چار کمروں میں رہ کر؟ آخر رات کو سونے کے لیے ایک ہی کمرہ چاہیے ہوتا ہے، باقی تو خالی پڑے رہتے ہیں۔ چلو مان جاؤ، کچھ عرصے کی تو بات ہے۔ ویسے بھی تمہیں شوق ہے تجربات کرنے کا، کب موقع ملے گا مضافات میں رہنے والی عورتوں سے ملنے اور کہانیاں سننے کا؟ ( یہ شوق تب بھی بہت تھا)
اگر ہم کچھ سوچ رہے تھے تو انٹرویو کرنے والے صاحبان بھی سر جوڑے بیٹھے تھے۔
”بھئی بڑا انگریزی قسم کا کپل ہے، ہمارے یہاں تو زیادہ دیہاتی مریض ہوتے ہیں۔ کیسے بات کریں گی یہ“
” حلیے پر مت جائیں، مجھے لیڈی ڈاکٹر کھری نظر آتی ہے، کام سے انصاف ضرور کرے گی“
”دیکھ لیں، کہہ چکی ہے کہ جو کام نہیں آتا، نہیں کرے گی۔ ایسا نہ ہو سارے مریض ہی بھگا دے پھر ہسپتال کیسے چلے گا؟“
”وہ کھری کے ساتھ ایماندار بھی لگتی ہے، آزمانے میں کیا حرج ہے؟“
چلیے جناب، ان صاحبان نے اپنے دل کو سمجھایا، ہم نے خود کو منایا اور آفر منظور کر لی۔
اکتوبر 91 سے لے کر جون، 93 تک ہم نے شافی ہسپتال دینہ میں کیا کیا کیا؟ اس کی کہانی پھر کبھی!
لیکن یہ تمہید ہم نے ان میڈیکل سینٹرز کے بارے میں کچھ لکھنے سے پہلے باندھی ہے جہاں ایم بی بی ایس، آر ایم پی ڈاکٹرز لوگوں میں شفا بانٹنے کے لیے بیٹھتے ہیں لیکن شفا کے ساتھ ساتھ موت بھی بے شمار پہ جھپٹتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر