نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

الزبتھ دوم کا انتقال اور ہمارے بادشاہ…….|| وجاہت مسعود

یہ نکتہ فراموش کر دیتے ہیں کہ برطانیہ صنعتی انقلاب کا نقیب تھا نیز یہ کہ انیسویں صدی میں برطانیہ یورپ کی سب سے خواندہ قوم تھی۔ دستکاری سے ایجاد کے راستے صنعت کاری کے دروازے کھلتے ہیں۔ زراعت اور اہل حرفہ پر مشتمل معیشت صنعتی پیداوار اور بہتر انسانی سرمائے کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ برطانوی ملکہ کی موت پر ٹھٹھے بازی آسان ہے مگر خود اپنے ہاں کے علانیہ اور غیرعلانیہ بادشاہوں کے ذکر پر قلم عصائے شیخ میں بدل جاتا ہے۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

8 ستمبر 2022 کو انگلستان کی ملکہ الزبتھ دوم 70 برس اور 214 روز تک برطانیہ عظمیٰ کی آئینی حکمران رہنے کے بعد انتقال کر گئیں۔ اپنے دور حکمرانی کے دوران ملکہ الزبتھ مختلف ادوار میں دولت مشترکہ کی 32 سے 15 خود مختار ریاستوں کی آئینی سربراہ بھی رہیں۔ انہیں برطانیہ میں ونسٹن چرچل اور مارگریٹ تھیچر سمیت 15 منتخب وزرائے اعظم سے واسطہ رہا۔ اس پون صدی میں دنیا بدل گئی۔ اب نہ کمیونزم کی یورش ہے اور نہ سرد جنگ کا اتار چڑھاؤ۔ فروری 1952 میں الزبتھ نے اقتدار سنبھالا تو دنیا میں سٹالن، چرچل، ڈیگال، آئزن ہاور اور ماؤ کا طوطی بولتا تھا۔ اب یہ نام گزشتہ صدی کا حاشیہ بن چکے بلکہ آج کی دنیا میں سرمایہ دار کمپنیاں باقاعدہ ریاستی بندوبست پر حاوی ہو چکیں، بھلے یہ ریاستیں جمہوری عنوان سے جواز پاتی ہوں یا آمریت کے پنجہ نخچیر میں گرفتار ہوں۔ 2 جون 1953 کو اخبارات میں ملکہ الزبتھ کی تاج پوشی کی خبر کے متوازی ماؤنٹ ایورسٹ سر ہونے کی خبر بھی شائع ہوئی تھی۔ ملکہ الزبتھ کے عہد اقتدار کے دوران انسان کے قدم چاند تک جا پہنچے اور اب تو مریخ پر بھی کمند ڈالی جا چکی۔ عالمی رستاخیز کے ان طوفانی پانیوں میں ملکہ الزبتھ کی مدھم مسکان اور باوقار خوش لباسی ایک مضبوط لنگر کی طرح قائم رہی۔ الزبتھ گزشتہ عہد کی روایات اور نئی دنیا کی بدلتی اقدار میں ایک پل کی حیثیت رکھتی تھیں۔

یہ سب تفصیل بے شک آپ کے علم میں ہے۔ درویش کو اس باز خوانی کی ضرورت 8 ستمبر کی دوپہر برادر محترم سے ملاقات کے دوران محسوس ہوئی۔ اس روز چارلس سوم کی بادشاہت کا باضابطہ اعلان کیا جا رہا تھا۔ برادرم کے فرائض منصبی میں کوئی درجن بھر ٹی وی اسکرینوں پر نظر رکھنا بھی شامل ہے تاکہ ہر قابل ذکر خبر ان کے علم میں ہو۔ ٹی وی پر چارلس سوم اور شاہی خاندان کے افراد نہایت سنجیدگی سے ایسی رسومات ادا کر رہے تھے جن کا بظاہر برطانوی عوام کی سیاسی اور معاشی فیصلہ سازی سے کوئی تعلق نہیں۔ درویش اور برادرم پر عمر کی دھوپ ڈھل چکی ہے مگر آتش رفتہ کے خفتہ انگار جھلک دینے سے کہاں باز رہتے ہیں۔ فرمایا، دیکھئے، یہ کیا تماشا ہو رہا ہے؟

برادر بزرگ کا احترام مانع تھا مگر اندر سے کہیں آواز ضرور آئی کہ روایت کے احساس اور تبدیلی کے شعور ہی سے تمدن تشکیل پاتا ہے۔ یہ تماشا میگنا کارٹا سے بریگزٹ تک بغیر کسی تحریری آئین کے آٹھ سو برس سے برطانوی قوم کے تسلسل کی ضمانت دیتا ہے۔ الزبتھ کے والد جارج ششم کی سلطنت کرہ ارض کے ایک چوتھائی رقبے پر آباد 53 کروڑ نفوس پر محیط تھی اور دوسری عالمی جنگ کے بعد قرضوں میں دبے برطانوی عوام صابن، شکر اور مکھن کی راشن بندی پر مجبور تھے۔ آج برطانیہ کا کل رقبہ محض 2 لاکھ 50 ہزار مربع کلومیٹر ہے یعنی پاکستان کے رقبے کا قریب ایک تہائی اور کل آبادی سات کروڑ سے کم ہے مگر برطانیہ کی معیشت پونے تین کھرب ڈالر کے ساتھ دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔ بھارت کی معیشت کا حجم بھی اتنا ہی ہے مگر بھارت کی آبادی ایک ارب 60 کروڑ ہے۔ جنوبی ایشیا میں ششی تھرور جیسے تاریخ دانوں کو نوآبادیاتی لوٹ مار کی نوحہ گری بہت مرغوب ہے۔ یہ نہیں بتاتے کہ اہل مغرب کی آمد سے پہلے شمال مغرب سے آنے والے حملہ آوروں کا شغل کیا تھا؟

یہ نکتہ فراموش کر دیتے ہیں کہ برطانیہ صنعتی انقلاب کا نقیب تھا نیز یہ کہ انیسویں صدی میں برطانیہ یورپ کی سب سے خواندہ قوم تھی۔ دستکاری سے ایجاد کے راستے صنعت کاری کے دروازے کھلتے ہیں۔ زراعت اور اہل حرفہ پر مشتمل معیشت صنعتی پیداوار اور بہتر انسانی سرمائے کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ برطانوی ملکہ کی موت پر ٹھٹھے بازی آسان ہے مگر خود اپنے ہاں کے علانیہ اور غیرعلانیہ بادشاہوں کے ذکر پر قلم عصائے شیخ میں بدل جاتا ہے۔

ان دنوں ملک میں سیلاب کی قدرتی آفت نے قیامت کھڑی کر دی ہے۔ 3 سے 4 کروڑ افراد بے گھر ہی نہیں ہوئے، کل جمع پونجی اور ذرائع معاش سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔ ایک تہائی ملک زیر آب ہے۔ سڑکیں، پل اور دوسرا انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا ہے۔ بیشتر فصلیں ضائع ہو گئی ہیں۔ کسان کے پاس آئندہ کاشت کاری کے لئے بیج اور کھاد کے وسائل نہیں ہیں۔ مال مویشی بہ گئے ہیں۔ وبائی امراض نے الگ وحشت پھیلا رکھی ہے۔ ہماری معیشت تو پہلے سے ہچکیاں لے رہی تھی۔ ادھر عالمی معیشت کا حال بھی اچھا نہیں۔ آئی ایم ایف سے سد رمق تو بہم پہنچی مگر دیگر دروازے بدستور بند ہیں۔

وجہ یہ کہ سرمایہ کار اس ملک کا رخ نہیں کرتا جہاں کے فیصلہ ساز اپنے عوام کی حالت زار سے بے نیاز اقتدار اور منصب کے لئے دست و گریباں ہیں اور کسی کو خبر نہیں کہ مستقبل قریب میں قومی سیاست کیا رخ اختیار کرے گی۔ صحافی اہل سیاست کا نوحہ پڑھتا ہے، پچھلے بجٹ اٹھا کر معاشی ترجیحات کا جائزہ نہیں لیتا۔ (یہاں ایک جملہ Hardwired Censorship کے زیر اثر حذف کرتا ہوں۔ ) اس برس 20 ارب ڈالر ادا کرنا تھے، سیلاب نے 25 سے 30 ارب ڈالر پر پانی پھیر دیا۔

خبر آئی ہے کہ سندھی ہم وطن سیلاب کی آڑ میں پیسوں کے عوض کم عمر بچیوں کی شادیاں کر رہے ہیں۔ ایسی غربت کی خوب کہی کہ 12 سالہ بچی کی شادی 50 سالہ بوڑھے سے کی جا رہی ہے اور شکوہ یہ کہ حکومت ہماری مدد نہیں کر رہی۔ یہ درویش جس برس پیدا ہوا، ملکی آبادی 5 کروڑ 90 لاکھ تھی۔ ہماری آبادی 23 کروڑ تک جا پہنچی، کسی سیاسی رہنما نے عوامی جلسے میں اس تباہی کی نشاندہی کی؟ موسمیاتی تبدیلیاں انگریزی اخبار کے صفحات میں گم ہو گئیں، کسی مذہبی پیشوا نے اس خطرے پر بات کی؟ اہل سیاست نے اپنا گریبان پکڑنے والے عوام کو چھلنی سے بہتے معاشی وسائل سے آگاہ کیا؟ بادشاہو، آپ کے لئے یہی کافی ہے کہ ملکہ کی موت پر ضلع جگت کی مشق کیا کریں۔ دنیا کے حقائق سے آپ کا کیا لینا دینا، تم سنوارا کرو بیٹھے ہوئے زلفیں اپنی۔

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author