ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانچ برس کی عمر سے پہلے تو کسی کو کچھ یاد نہیں رہتا سو انہیں منفی کر دیا جائے تو بنتی ہے نصف صدی۔ باپ رے باپ، نصف صدی کی عورت۔
نصف صدی کی عورت، عنوان خوب ہے بھئی۔ یاد ہے لکی ایرانی سرکس میں شیر کے منہ والی عورت۔
عجیب سی بات ہے لیکن ہے۔
بچپن میں جب کوئی افسانہ یا کہانی ہم پڑھتے جس میں پچاس پچپن کی عورت کا ذکر ہوتا تو نقشہ کچھ یوں کھینچا جاتا، شکل سے گھاگ نظر آوے، حرکات میں شاطر، نقاہت اور عمر نے ہلنے جلنے کے قابل نہیں چھوڑا، تخت پہ بیٹھی حکم چلاتی اور داؤ پیچ کھیل کر ہر کسی کا دم ناک میں کرتی ہوئی بڑھیا۔
اس وقت تصور میں ایک انتہائی خوفناک اور بدصورت شکل بن جاتی۔
وقت گزر گیا، بہت تیزی سے گزرا۔ اگر ہم اب یہ کہیں پڑھ لیں، پچپن چھپن برس کی ادھیڑ عمر عورت، کچھ دیر حیرانی میں کٹتی ہے، کچھ پریشانی میں، دبی دبی ہنسی اور پھر قہقہہ۔ کھل کر ہنسنے کے بعد ہم سوچتے ہیں کیا واقعی ادھیڑ عمری؟ کیا بڑھاپا دروازے پہ دستک دینے لگا؟
بھاگے بھاگے جا کر قد آدم آئینے میں گھور گھور کر دیکھیں تو۔ پہلے تین فٹ دور، پھر دو فٹ، پھر ایک فٹ، پھر آدھا فٹ اور پھر آئینے سے منہ جوڑ کر۔ نہ نہ نہ، اپنے آپ کو چما، نہیں بھئی، وہ بھی اس عمر میں۔ دیکھو چھیڑو مت۔ پہلے ہی کھد بد لگی ہے کہ کھوجیں تو آثار بڑھیا بننے کے؟
کچھ سفید بال دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، بی بی ہوش کے ناخن لو، کس نے کہا کہ سفیدی بڑھاپے کی علامت۔ بھول گئیں اپنے ابا کو جو شاید پیدا ہی سفید سر کے ساتھ ہوئے اور سکول میں لوگ انہیں تمہارے دادا سمجھا کرتے تھے۔ بیٹے کا سر بھی دیکھ لو جو انیس کی عمر میں سفید بالوں سے اٹا پڑا ہے۔ نانا پہ گیا ہے نا۔
اوں ہوں، نہیں بھئی ہٹاؤ ان سفید بالوں کو۔ یہ تو اصل بات نہیں بتاتے۔ کچھ اور دیکھو۔
ارے ہاں یہ ماتھے کی سلوٹیں۔ ماتھا چمک کر بولے، یہ تب بھی تھیں جب تم اتی سی لڑکی۔ بھول گئیں، بھنویں اچکا اچکا کر اپنے سوالوں سے ہر کسی کے ناک میں دم کر رکھا تھا۔ اب میں کیا کروں؟
اچھا بھئی مان لیا، تم ناراض نہ ہو، ہماری غلطی بھیا۔ دیکھو من موجی بن کر اگر مزے کرتے ہم، ہر چیز سے منہ پھیرتے ہوئے کہہ دیتے کہ مجھے کیا؟ تو واقعی تمہاری خوبصورتی پہ حرف نہ آتا۔ خندہ پیشانی سے ہماری معذرت قبول کرو۔
ارے ہاں، نظر کمزور ہے بھئی۔ چشمہ لگا ہے سالہا سال سے۔ ہائیں ہائیں، کب نہیں تھیں تمہاری بٹن سی آنکھیں کمزور۔ آنکھ چلاتی ہے۔ تم تو شاید پیدا ہی ان لکیر سی آنکھوں کے ساتھ ہوئی تھیں۔ رہی سہی کسر ان نگوڑ ماروں نے نکال دی جنہیں تم نے اپنی جان سے کسی روگ کی طرح لگائے رکھا۔ کھانا ملے نہ ملے، رسالہ یا کتاب مل جائے۔ نتیجہ یہی نکلنا تھا نا کہ چھٹی جماعت میں ہی عینک لگ جائے۔
اف، اچھا اچھا، آ گیا یاد۔ ہم گھورتی ہوئی آنکھوں سے آنکھیں چراتے ہیں۔
یہ آنکھوں کے گرد کوے کے پیر؟ نہیں بھئی غلط سمجھے آپ اصلی کوا ہماری آنکھ پہ کیسے بیٹھتا؟ یہ جو کاسمیٹک کمپنیوں نے دنیا بھر میں آندھ مچا رکھی ہے نا، یہی نام دیا انہوں نے آنکھ کے گرد باریک باریک لائنوں کو۔ بھئی جس نے بھی نام رکھا، کیا تخیل تھا ان کا، لگتا ہے کووں کے خاندان سے تعلق رہا ہو گا۔ اچھی بھلی عورتوں کی آنکھوں کو کووں کے پاؤں سے جوڑ دیا۔ سوچو اگر نہ جوڑتے تو رنگ برنگی کریمیں کیسے بکتی، بوٹوکس کے انجکشن کیسے لگتے ہر کسی کے منہ پر۔ اب جس کو دیکھو، ماتھا جیسے سلیٹ، بھنویں کھچی ہوئی، مسکان مصنوعی کہ منہ کھلتا نہیں۔ باربی ڈول لگیں سب۔ ٹھیک ہے بھئی ہر کوئی کہاں ہنستے ہوئے کہے کہ لو چہرے پہ کوا آن بیٹھا۔
ہاں بھئی ہیں ہمارے منہ پہ پہ کوے کے پاؤں۔ کیا فرق پڑتا ہے اگر کچھ کے نزدیک یہ بڑھاپے کا نشان ہے۔ ہٹاؤ ہم نہیں مانتے، ہم نہیں جانتے۔
اور کیا ڈھونڈیں اب؟ ہونٹوں کے گرد لائنیں؟ ہیں تو۔ ہوتی ہیں قدرتی طور پہ۔ بس کچھ کی ذرا زیادہ گہری جو وقت بے وقت منہ کھول، گلا پھاڑ کر ہنسیں تو۔ کیا علاج ہو اگر زیادہ ہنسی آئے اور کھل کر اونچی آواز میں قہقہہ بھی لگے۔ اجی چھوڑیے ہوتی رہیں بھلے گہری یہ لکیریں۔ کیا ہنسنا چھوڑ دیں؟ ڈر سے منہ بند کر لیں؟ نہ بھئی نہ، منظور نہیں۔ دل کو گدگداتے لمحات کو گنوانا، نہ بابا نہ۔ سہارا زندہ رہنے کا یہی تو ہے، کچھ باتیں، تھوڑی ہنسی اور کچھ قہقہے۔
ادھیڑ عمری عرف بڑھاپا کی کوئی نشانی ہی نہیں۔ کیا کریں؟
مل گئی، مل گئی، ایک عدد ڈھونڈ ہی لی آخر۔ چھوٹی سی گردن پہ ایک اور گردن یا ٹھوڑی پہ ایک اور ٹھوڑی، یہی کہیں گے نا ڈبل چن کو۔ واقعی بھئی ہم تو دو دو ٹھوڑیوں کے مالک بن گئے۔ کیا کہتے ہیں اسے، کھاتے پیتے لوگوں کی نشانی دو گردنیں یا دو ٹھوڑیاں۔ کیا کریں اب گردن کٹوائیں یا گردن کسوائیں؟
یاد آیا ہماری ایک ساتھی ڈاکٹر خوب شوقین تھیں، تھوڑے تھوڑے عرصے بعد دوبئی کے کسی کلینک میں داخل ہوتیں اور سب کچھ کسوا لیتیں۔ ستر میں بھی چالیس کو شرماتی تھیں۔ ہم بھی کرید کرید کر سب پوچھتے کہ کہاں؟ کیسے؟ کتنا جرمانہ؟ لیکن قسم لے لیجیے جو کبھی خود ہمت کی ہو۔ آنے والے برسوں کے متعلق کچھ کہہ نہیں سکتے کب دل باغی ہو جائے۔
ہائے میں مری، ایک بال وہ بھی ٹھوڑی پہ۔ کیا داڑھی اگنے لگی؟ اللہ زیادہ ہو گئے تو؟ شیونگ کریم اور ریزر خریدوں کیا؟
فکر نہ کرو، دل گھر کتا ہے۔ گیتانجلی شری کے ناول ریت سمادھی میں ماں بیٹی کو یہی فکر لاحق ہے، اکیلی نہیں ہو اس دبدھا میں تم۔
” مرد تو نہیں بن رہی؟
داڑھی نکلتی ہے، دیکھو۔
ایک بال ہے، بیٹی ہنستی اور کہتی ہے۔ ارے میرے بھی ہے، ٹھیک یہیں۔
ہاں، اسی جگہ ٹھوڑی پر بال آتا ہے۔ دیکھو بس ایک۔ لمبا ہوتا جائے گا۔
ماں نوچنا چاہتی ہیں۔ قینچی دو۔
نہیں نہیں، بیٹی گھبراتی ہے۔ میں چمٹی سے کھینچ دوں گی۔ کمال ہے، میرے بھی ٹھیک اسی جگہ ہے، بس ایک بال آتا ہے۔ ہم دونوں کی داڑھی۔
ہوہوہو ”
( ہندی ناول ریت سمادھی۔ مصنفہ گیتانجلی شری۔ ترجمہ انور سن رائے )
مطمئن ہو گئے ہم، سرحد کے اس طرف کی عورت بھی ہم جیسی۔ اب کہاں دیکھیں کہ کہاں کہاں سے دکھیں بڑھیا، برائے مہربانی زبر کی بجائے پیش سے پڑھیے گا۔
یاد آیا، ہڈیاں ہیں کچھ کمزور، نظر بھی لگے تو ٹوٹ جائیں۔ کیا کریں نظر کے ہم شروع سے کچے، ایسے اڑ کر لگتی کہ اماں سرخ مرچیں سر سے وار وار کر تھک جاتیں، نہ مرچوں کے جلنے کی بو آتی اور نہ اماں کی بڑبڑاہٹ رکتی۔
پچاس برس پہلے کی بات ہے، چھ سات برس عمر ہو گی، جب ٹانگ ٹوٹی۔ ٹانگ بھی ہماری طرح شوقین، سمجھ لیجیے نا ٹانگ بھی ہماری، کسی ہمسائے کی تو نہیں۔ سو اس فریکچر کی گولڈن جوبلی منانے کا شوق ٹانگ کے سر پہ سوار ہوا پچھلے ماہ، ہم کیسے مانیں؟ اب وہ مصر، ہماری نہ نہ نہ۔ بستر پہ لیٹنا آسان کام ہے کیا؟ سنو اگر تم چھوٹی رہ گئیں جڑنے میں دوسری ٹانگ سے، کیسے بھاگو گی تم دونوں ساحل سمندر پہ؟ سوچ لو بے عزت ہو جاؤ گی جب لوگوں نے کہا، لنگڑی کی ٹانگ چھوٹی بڑی۔
ٹانگ کی سمجھ میں کچھ آیا، کچھ نہ آیا، شروع سے ہٹ دھرم، ہمارا سمجھانا بجھانا سب بیکار، ضد قائم کہ ٹوٹ کر ہی گولڈن جوبلی مناؤں گی۔ آخر میں پاؤں نے کہا، ٹانگ بہن نہ تمہاری، نہ ان کی، چلو اس یاد میں ایک ہڈی میں تڑوائے لیتا ہوں، بھائی ہوں تمہارا، ساتھ ہوں کب سے، کیا کروں گا اتنی بہت سی ہڈیوں کا؟ چلیے جی پاؤں نے ایک ہڈی کی بھینٹ چڑھائی، ٹانگ کی ضد پوری ہوئی۔ پچھلے ماہ کا واقعہ ہے یہ۔
دفع کرو ان ہڈیوں کو، گوشت بوٹی دیکھو۔ چربی کچھ کم، پیٹ لٹک نہیں رہا۔ نہیں نہیں بھئی نہ چربی نکلوائی ہے نا کوئی جنیاتی اثر۔ اماں کو خدا جنت نصیب کرے، ان کا پیٹ کسی سے بھی پہلے آگے بڑھ کر گلے ملتا۔ ہم کہتے، اماں کیا بچہ ہونے والا ہے؟ کہتیں چل پرے، ماہواری سوکھ گئی کب سے۔ پھر کیا ہے یہ؟ ارے ہوا ہے ہوا۔ نکلتی نہیں، اپھارہ ہے پیٹ میں۔ ہوہوہو۔
تو جناب پیٹ نہ ہونے کا سہرا اس زپ کے سر ہے جس سے ہم نے منہ سی رکھا ہے۔ ڈائیٹنگ کس عمر سے کر رہے ہیں، بالکل یاد نہیں۔ شاید پیدائش کے دن سے یا شاید ماں کے پیٹ سے۔ اماں اکثر کہتی تھیں کہ سب بچوں میں سے ہم نے ہی ان کا دودھ کم پیا۔ تب سے ہی سمارٹنیس کا بھوت سر پہ سوار۔
ڈائیٹنگ کے قصے پھر کبھی، ابھی تو بڑھاپے کی بات کرنے دیں۔
بھئی باہر تو جو ہے سو ہے، دل کی خبر لے لو۔ بھئی وہی چلبلا، اٹکھیلیاں کرتا دل، سب امنگوں ترنگوں سے بھرپور، پہلے جیسا جذباتی، چھوٹی چھوٹی باتوں پہ خوش ہو جانے والا، ذرا سی بات پہ رو دینے والا، تتلیوں کے رنگ دیکھ کر مچل جانے والا، پرندوں کے ساتھ پرواز کی خواہش اور یہ نہ ماننے والا کہ ہمارے ساتھ وہ بھی چھپن کا۔
اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟
وہ سرگوشی کرتا ہے۔
دنیا تمہارے لیے جب تک سانس باقی ہے۔ مرنے سے پہلے مرنے کی ضرورت نہیں۔ قبر سے پہلے کفن کیوں پہننا؟
جیو اور کھل کر جیو!
چلیے پھر ہمیں سالگرہ مبارک ہی کہہ دیجیے۔ ایک بڑھیا کو نہیں، ایک عورت کو جس کا دل بوسیدہ نہیں ہوا۔ اور نہ ہی ذہن پہ مکڑی جیسا کوئی جالا بنا ہے کہ وہ اپنی عمر سے شرمائے۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر