نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

امریکہ سے درخواست||ظہور دھریجہ

عوام سونے کی قیمت سن کر کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں، بجلی کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ خصوصاً بجلی بلوں میں سیلز ٹیکس شامل ہونے سے چھوٹے دکانداروں کی چیخیں نکل گئی ہیں،تاجر سراپا احتجاج ہیں،

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی حکام سے فون پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے 2.1 ارب ڈالر کے قرض کا عمل تیز کرنے کیلئے امریکا کردار ادا کرے۔ اس پر سابق وزیر اعظم عمران خان نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر امریکا ملک کی موجودہ صورت حال میں مدد کرے گا تو کیا وہ اپنی ڈیمانڈ نہیں رکھے گا۔ عمران خان کی بات بھی درست ہے لیکن یہ بھی ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے اب پاکستان کی عوامی حکومت پر بہت کم اعتماد کرتے ہیں، اس اعتماد کو بحال کرنے کی ضرورت ہے، اعتماد تب بحال ہو گا جب ملک سے سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ہوگااور حقیقی جمہوریت وجود میں آئے گی۔ سی پیک کو ہی دیکھ لیجئے، ہمارا چین سے بہت بڑا معاہدہ ہوا مگر چین نے بھی ضمانت طلب کی تھی تو ہمارا عسکری ادارہ ضامن بنا۔ یہ ٹھیک ہے کہ سیاسی و انتظامی معاملات اور خارجہ امور سے عسکری اداروں کا کوئی تعلق نہیں ہوتا مگر یہ تب ممکن ہے جب سیاسی حکومتیں خود کو اس قابل بنائیں کہ کسی ادارے سے مدد کی ضرورت پیش نہ آئے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی نائب امریکی وزیر خارجہ وینڈی شرمین کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کے حوالے سے امریکی وزارت خارجہ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ پاکستانی حکام کے درمیان متعدد معاملات پر باقاعدگی سے بات چیت ہوتی رہتی ہے، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نجی سفارتی بات چیت پر وہ تبصرہ نہیں کرتے۔ امریکا سے مدد کے حوالے سے عمران خان کی تنقید اپنی جگہ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان اپنے اقتدار کے شروع میں خود بھی امریکا کے تابع فرمان تھے اور سی پیک منصوبے کو امریکی اشارے پر سال ڈیڑھ سال تک انہوں نے لٹکائے رکھا۔ امریکی نمائندہ وینڈی شرمین نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کے کئی اسٹیک ہولڈرز سے متعدد معاملات پر رابطے ہیں، حالانکہ یہی بات قابل اعتراض ہے کہ رابطہ حکومتوں کے درمیان ہونا چاہئے اور یہ رابطہ ملکوں کی قومی خود مختاری اور آزاد خارجہ پالیسی کے مسلمہ اصولوں کے مطابق ہو تو بہتر ہے۔ دُکھ بھی ہوتا ہے کہ سیاستدانوں نے ملک کا یہ حال کر دیا ہے کہ پاکستان کو سود اور بھاری شرائط پر قرض لینے کے لئے بھی سپر پاور کی سفارش کرانا پڑتی ہے، حالانکہ پاکستان میں وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن پاکستان کو کرپشن کھا گئی ہے اور کوئی ادارہ ایسا نہیں جو کرپشن سے پاک ہو۔ ملک میں ایک طرف سیلاب ہے تو دوسری طرف مہنگائی نے غریب عوام کا برا حال کر دیا ہے، ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے ، عوام سونے کی قیمت سن کر کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں، بجلی کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ خصوصاً بجلی بلوں میں سیلز ٹیکس شامل ہونے سے چھوٹے دکانداروں کی چیخیں نکل گئی ہیں،تاجر سراپا احتجاج ہیں، کاروبار میں مندی ہے، دکاندار دکانوں کا کرایہ نہیں نکال پا رہے اوپر سے بجلی بلوں میں شامل ٹیکسوں نے ان کو احتجاج کرنے اور سڑکوں پر آنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں مہنگائی کی مجموعی شرح 37.6 فیصد تک پہنچ گئی ہے، ایک ہفتے میں مہنگائی کی ریکارڈ شرح بڑھی ہے۔ یہ بھی دیکھئے کہ لاہور ہائیکورٹ نے وکلاء دفاتر کے بجلی بلوں پر سیلز ٹیکس کی وصولی کالعدم قرار دیدی ہے حالانکہ یہ وصولی چھوٹے دکانداروں پر بھی ختم ہونی چاہئے اور بجلی کی قیمتوں میں بھی کمی کا حکم دینا چاہئے۔ وکلاء طاقتور طبقہ ہے وہ اپنی بات منوا لیتا ہے مگر غریب طبقات کی بات کون کرے گا؟۔ غریب طبقہ جس طرح غربت کی چکی میں پس رہا ہے اس پر عدالت کو از خود نوٹس لینا چاہئے تھا، مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہو رہا، غریب کو بھی ریلیف اور انصاف ملنا چاہئے۔ بلوچستان اور وسیب میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں، وزیر اعظم شہباز شریف نے سندھ ، بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کا اعلان کیا تھا مگر انہوں نے اپنا یہ دورہ ایک بار پھر منسوخ کر دیا ہے، وزیر اعظم کو سندھ بلوچستان کے ساتھ ساتھوسیب کے سیلاب زدہ علاقوں کا بھی دورہ کرنا چاہئے کہ وسیب میں سیلاب سے ایک لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں، دو سو کے قریب دیہات اور ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں، شدید مالی و جانی نقصان ہوا ہے ۔ یہ اچھی بات ہے کہ وزیر اعظم نے سندھ ، بلوچستان کے سیلاب متاثرین کے ہر گھر کیلئے دو لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا ہے اور زخمیوں کیلئے امداد پچاس ہزار سے بڑھا کر دو لاکھ کر دی ہے، لیکن یہ امداد سندھ بلوچستان کے ساتھ ساتھ وسیب کے سیلاب متاثرین کو بھی ملنی چاہئے اور سب سے اہم یہ کہ دریائے سندھ میں ماچھکہ کے مقام پر باراتی کشتی ڈوبنے سے جاں بحق ہونے والے تینتیس افراد کے لواحقین کو بھی بیس بیس لاکھ کی امداد ملنی چاہئے، اس سلسلے میں وفاقی وزیر بلاول بھٹو ، سید یوسف رضا گیلانی، مخدوم مرتضیٰ محمود اوروسیب سے تعلق رکھنے والی (ن) لیگ کی مقامی قیادت کو کردار ادا کرنا چاہئے۔ گزشتہ روز ہم نے تونسہ کے سیلاب زدہ علاقوں پل قبر ، بستی احمدانی ، کریم والا، چوکی والا ، بستی چولانی ،کالا کالونی،شادن لُنڈ اور آس پاس میں سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا، میرے ساتھ سرائیکی رہنما ملک جاوید چنڑ اور ڈاکٹر عمر فاروق بلوچ و دیگر دوست تھے،ہر طرف سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھنے میں آئی، سینکڑوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے، ہزاروں ایکڑ فصلیں تباہ ہو گئیں ، شدید جانی و مالی نقصان ہوا ہے، سیلاب متاثرین انڈس ہائی وے پر بے یار و مدد گار کسمپرسی کی حالت میں موجود تھے۔ ایک واقعہ یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ بستی احمدانی کے سکول میں سیلاب متاثرہ خواتین کے ساتھ انتظامیہ نے بد سلوکی کی اور سکول خالی کرا لیا، اس پر باپردہ خواتین نے احتجاجاً انڈس ہائی وے پر دھرنا دے کر روڈ بلاک کر دی اور احتجاج کیا، یہ واقعہ ایک لحاظ سے تبدیلی کی نشاندہی بھی کر رہا تھا کہ ڈی جی خان ڈویژن میں پردے کی پابندی ہے اور خواتین شہروں میں بھی کم نظر آتی ہیں مگر باپردہ خواتین نے احتجاج شروع کر رکھا تھا اور انڈس ہائی وے بلاک تھی، لوگ سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو دوش دے رہے تھے کہ انہوں نے ساڑھے تین سال تک وزیر اعلیٰ رہنے کے باوجود ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں رود کوہی سیلاب سے بچائو کے اقدامات کیوں نہ کئے؟۔

 

 

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author