اکمل خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سوات اور گلگت کے دور دراز پہاڑوں میں کھوکوش نام کا ایک ظالم دیو رہتا تھا۔ اس کا قد آسمان سے باتیں کرتا تھا جبکہ ہیبت کا یہ عالم تھا کہ کوسوں دور تک کوئی بندہ بشر اس کے علاقے میں قدم نہ رکھتا۔ کھوکوش دیو کا اصل ٹھکانہ سطح سمندر سے 4970 میٹر کی اونچائی پر واقع ہے۔
’دیو نے اپنا ٹھکانہ اتنی بلندی پر بنایا ہوا تھا کہ وہاں ہوا انتہائی نرم پڑ جاتی اور اس تک پہنچنے والے کو اپنی سانس پر قابو رکھنا مشکل ہو جاتا۔
’دیو کی عمر کے بارے میں کسی کا علم حتمی نہیں تھا لیکن علاقے کے بڑھے بوڑھے بتاتے ہیں کہ اس کی عمر شاید ان پہاڑوں کے برابر ہے۔‘
یہ کہانی سوات کی مہوڈنڈ جھیل سے گلگت بلتستان کے ضلع غذر جانے والے راستے پر کمر توڑ سفر کے بعد آنے والی نیلمیں جھیل کے کنارے ایک گڈریا سنا رہا تھا اور ہم مبہوت ہو کر سن رہے تھے کیوں کہ اس جادوئی دیومالائی ماحول میں ہر کہانی سچی لگنے لگتی ہے۔
گڈریے نے کہانی جاری رکھی: ’ہندوکش کے پہاڑوں میں جہاں اس کا ٹھکانہ تھا وہاں اس نے بڑے بڑے پتھریلے تودوں کو اپنی طاقت سے توڑ کر چارسو پھیلا دیا تھا جس کی وجہ سے اس علاقے میں دور دور تک گھاس یا سبزے کا نشان نہیں تھا۔
’بلند و بالا پہاڑوں کی اس بھول بھلیوں میں کوئی بھولا بھٹکا قافلہ یا مسافر اگر آن نکلتا تو اسے پاؤں رکھنے کو نرم جگہ یا کچی مٹی کا ایک انچ نہ ملتا۔
’سال کے نو مہینے یہ دیو اپنے اطراف برف کی موٹی تہہ کا حصار بچھائے رکھتا کہ اگر کوئی اس کی راہ پر آ نکلے تو وہ موسم کی شدت کا شکار ہو کر ٹھٹھر کر مر جائے۔
’صدیوں پہلے ہندوکش کے اسی پہاڑی سلسلے میں چار پریاں رہتی تھیں جن کا حسن چودھویں کے چاند کو بھی شرماتا تھا۔
’پہاڑ کے اس پار شندور کے سرسبز میدان میں جب گلگت کا راجہ اور چترال کے مہتر شکار کے لیے آتے تو ان کے لشکریوں کے درمیان چاندنی رات میں پولو کا میدان سج جاتا اورگھوڑوں کے سموں سے اڑتی دھول کے ساتھ فتح کے نعرے بلند ہوتے۔
’یہ چاروں پریاں جب شندور کے نیلگوں پانیوں کے کنارے چاندنی رات میں رقص کرتیں تو کائنات کی خوبصورتی اس وادی میں چار سو پھیل جاتی۔
’دیو نے ایک دن ان چار پریوں کو قید کر کے جھیلوں کی شکل دے دی، جن کو لوگ اب اسی دیو کی نسبت سے جانتے ہیں۔‘
کھوکوش تک پہنچنے اور دیو کی قید سے ان خوبصورت پریوں کو آزاد کروانے کے لیے ایک راستہ سوات کی خوبصورت جھیل مہوڈنڈ سے آتا ہے اور دوسرا راستہ گلگت بلتستان کے ضلع غذر کے علاقہ لنگر نالہ سے شروع ہوتا ہے۔
’صدیوں سے کئی سورما، جوان رعنا اور شہزادے ان پریوں کو اس دیو کی قید سے آزاد کرانے نکلے لیکن کوئی بھی کھوکوش دیو کو تسخیر کرنے کے راز کو نہ پا سکا اور نہ ہی ان پریوں کی قید ختم ہو سکی۔‘
کھوکوش دیو کے ٹھکانے کو آنے والے دونوں راستے شروع میں تو بڑے دلفریب مناظر سے بھرے دکھائی دیتے ہیں لیکن ایک رات کے پڑاؤ کے بعد جوں جوں آگے بڑھیں تو یہ خوبصورت مناظر آہستہ آہستہ موت کی وادی میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
سوات کی طرف بنجر بے آب و گیاہ پہاڑی چٹانیں راستہ روکے کھڑی ہوتی ہیں۔ ان چٹانوں کو سرکتے پتھروں پر چلتے چلتے عبور بھی کر لیں تو راستے میں ہزار میٹر سے بلند قریباً عمودی دیوار راستہ روکے کھڑے ہوتی ہے جہاں پر ایک غلط قدم مسافر کو بلندی سے تاریک گھاٹیوں کی خوراک بنا دیتا ہے۔
دوسرا راستہ غذر ضلعے کے علاقہ لنگر نالہ سے شروع ہوتا ہے۔ لنگر نالہ والے راستے پر تند و تیز نالہ، گلیشیئر اور بلندوبالا چوٹیاں مسافر کی ہمت توڑنے کے لیے کمر بستہ دکھائی دیتی ہیں۔
لنگر پہاڑوں کے درمیان ایک وسیع سرسبز میدان ہے جہاں کھوکوش کی قیدی پریوں کے آنسو ایک شور مچاتے نالے کا روپ دھار لیتے ہیں۔
بہار کے موسم میں سرسبز گھاس کے اس میدان میں چار سو یہ نالہ بل کھاتا جب بہتا تو اطراف میں رنگا رنگ پھول کھل اٹھتے ہیں۔ مقید پریوں کی رہائی کے لیے جانے والوں کے لیے لنگر پہلا پڑاؤ ہوتا ہے۔
ظالم دیو نے سب سے بڑی پری کو لنگر نالہ سے تین گھنٹے کی پیدل مسافت پر قید کر کے ایک پانچ کلومیٹر طویل جھیل کی شکل دے دی۔ جس کے کنارے چلتے دوسری بہن یعنی جھیل تک پہنچنے کے لیے بڑے بڑے پتھروں کا ایک طویل سلسلہ ہے جس پر پانچ گھنٹے مارخور کی طرح چھلانگیں لگاتے جانا پڑتا ہے اور فاصلہ طویل ہو کر 10 کلو میٹر تک پھیل جاتا ہے۔
سب سے بڑی جھیل سے دوسری اور تیسری جھیل تک رسائی قدرے آسان ہے لیکن پھر بھی یہ فاصلہ قریباً دو گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔
کھوکوش کے نام سے مشہور جھیلوں کی چوتھی جھیل کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک جانے کا راستہ ہر سال تبدیل ہوتا ہے، کیوں کہ یہ پری یعنی جھیل کھوکوش دیو کے ٹھکانے کے قریب ہے تو یہاں پر اس نے مسافروں کو بھٹکانے کا خوب انتظام کیا ہے۔
عموماً جھیل کے کنارے کنارے چل کر جھیل کی دوسری سمت پہنچنا ممکن ہوتا ہے لیکن چوتھی جھیل کے دوسرے سرے پر پہنچنے کے لیے یہ غلطی مسافر کی منزل کھوٹی کر دیتی ہے۔
تیسری جھیل گزرنے کے بعد دائیں جانب سے مسافر ایک عمودی پہاڑ عبور کرتے ہیں اور پھر پہاڑ کی اونچائی سے ایک پتلا پگڈنڈی نما راستہ شروع ہو جاتا ہے جو اس آخری جھیل کے اس پار ایک چھوٹے سے چشمے کے کنارے جا نکلتا ہے، جہاں پر مسافر رات گزارتے ہیں۔
یہ راستہ بالکل پل صراط سے مشابہت رکھتا ہے کیوں کہ ایک لمحے کی بے احتیاطی یا غلطی، مسافر کو جھیل کے پانیوں کی نظر کر سکتی ہے۔
بوڑھا گڈریا کہانی سناتے ہوئے ایک لمحے کو خاموش ہوا ہی تھا کہ بجلی کی کڑک نے میرے انہماک کو ختم کر دیا۔ میں جو بڑے غور سے کہانی سن رہا تھا ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔
بوڑھا گڈریا جانے کہاں غائب ہو گیا تھا۔ گھبرا کے ادھر ادھر دیکھا تو میرا ساتھی صادق پتھروں کے بیچ آڑا ترچھا لیٹا سردی سے بچنے کی کوشش کر رہا تھا۔
کیا یہ میرا وہم تھا جس نے سارے دن کے حقیقی سفر کو ایک کہانی کے شکل میں میرا دماغ پر ثبت کر دیا تھا یا ایک خواب تھا؟
کھوکوش پہاڑ کے دامن میں پھیلے پتھروں کے اس جہان میں آسمان پر گہرے کالے بادل چھائے ہوئے تھے جس سے چاروں طرف گھپ اندھیرا چھا گیا تھا۔
بارش کسی بھی لمحے شروع ہونے والی تھی۔ میں اپنے ساتھی کے ساتھ ہندو کش سلسلے کے ان پہاڑوں میں کھلے آسمان تلے پتھروں کے درمیان بغیر کسی خیمے اور سلیپنگ بیگ کے پناہ گزین تھا۔
گذشتہ روز پورٹر ہمیں موت کی اس وادی میں بے یار و مددگار چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور جس قافلے کا ہم حصہ تھے وہ ہم سے بچھڑ کر درہ کھوکوش پار کر کے سوات کی وادی میں قیام کیے ہوئے تھا۔
ہم سے بچھڑ کر آگے نکل جانے والے ساتھی سمجھ رہے ہوں گے کہ میں اپنے ساتھی کے ساتھ کھوکوش سلسلے کی سب سے بڑی جھیل، باہا چھت سے واپس پھنڈر کی طرف چلا گیا ہوں گا جب کہ میں اور صادق فیصلہ کر چکے تھے کہ واپسی کی بجائے آگےسفر جاری رکھا جائے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر