وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سے روس یوکرین جنگ میں تیزی آئی ہے۔ گندم، مکئی، خوردنی بیجوں، مصنوعی کھاد، تیل اور گیس کی قیمتیں آسمان پر پہنچنا تو سمجھ میں آتا ہے مگر ان کی دیکھا دیکھی کوئلے کی قیمت کو بھی پر لگ گئے۔ وہ کوئلہ جو بین الاقوامی منڈی میں ڈیڑھ سے دو سو ڈالر فی ٹن کے حساب سے خریدا بیچا جا رہا تھا۔ جنگ شروع ہونے کے ایک ماہ بعد ہی سوا چار سو ڈالر فی ٹن پر پہنچ گیا۔ اب یہ بخار رفتہ رفتہ اتر رہا ہے مگر اتنی تیزی سے بھی نہیں جتنا کہ ہم جیسے غریب آس لگائے بیٹھے ہیں۔
اس تناظر میں توانائی کے بحران سے جوجھ رہے پاکستان کی نگاہیں افغانستان کی جانب اٹھیں اور اس نے گزشتہ ماہ افغان انتظامیہ سے کوئلے کی خریداری کا اصولی فیصلہ کر لیا۔ پاکستان کے پیش نظر یہ پہلو ہے کہ اس وقت بجلی گھروں میں استعمال ہونے والا زیادہ تر کوئلہ جنوبی افریقہ سے درآمد کیا جا رہا ہے اور طویل فاصلے کے سفری اخراجات کے سبب مہنگا پڑتا ہے۔ جب کہ افغانستان کے ساتھ کوئی جغرافیائی دوری نہیں چنانچہ کوئلے کی رسد میں بھی خلل پڑنے کا بہت کم امکان ہے۔ پھر یہ بھی فائدہ ہے کہ ادائیگی ڈالر کے بجائے روپے میں ہو سکتی ہے۔ یوں پاکستان کے لیے سالانہ لگ بھگ دو ارب ڈالر کی بچت ممکن ہے۔
جس وقت پاکستان نے اپنی دلچسپی کا اظہار کیا اس وقت افغان کوئلے کی قیمت نوے ڈالر فی ٹن تھی۔ پاکستان کی سنجیدگی دیکھ کر کابل انتظامیہ نے کوئلے پر محصولات اور ڈیوٹی میں اضافہ کر کے اس کی قیمت دو سو ڈالر فی ٹن تک پہنچا دی۔
کہنے کو افغان انتظامیہ کو اس وقت ایک ایک ڈالر کی ضرورت ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کا کوئی ملک اور بین الاقوامی تنظیم سفارتی سطح پر اسے تسلیم نہیں کرتے۔ مغربی دنیا نے عملاً پیسے منجمد کر کے اقتصادی بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جس کی جانب سے تسلیم نہ کیے جانے کے باوجود ہر طرح کے غیر رسمی سفارتی، سیاسی اور اقتصادی روابط برقرار ہیں۔
چنانچہ جب افغان انتظامیہ نے کوئلے کی قیمت میں راتوں رات سو فیصد سے زائد کا اضافہ کیا تو کچھ پاکستانی حلقوں اور سوشل میڈیا نے اس پر افسوس اور حیرت کا اظہار کیا۔ مگر یہ ردعمل شاید زیادہ درست نہ ہو۔ تجارت مروت پر نہیں حقائق اور طلب و رسد کے اصول پر چلتی ہے۔ اگر ہم کسی اور ملک کی جانب سے قیمتوں میں اتار چڑھاؤ پر برا نہیں مناتے تو افغان انتظامیہ کے اقدامات پر کیوں دکھ ہو۔
دقت بس اتنی ہے کہ جب تک پاکستان سفارتی سطح پر افغان انتظامیہ کو تسلیم نہیں کرتا تب تک سرکاری سطح پر کوئی لین دین مشکل ہے۔ البتہ نجی شعبے کو ان تکلفات سے استثنٰی حاصل ہے۔
ہمارا ایک اور قومی مسئلہ بھی ہے۔ جب عالمی منڈی میں ہماری ضرورت کی اشیا کی قیمت کم ہوتی ہے تب ہم یہ اشیا بنانے یا پیدا کرنے والے ممالک سے لمبی مدت کے سمجھوتے کرنے کے بجائے سوتے رہتے ہیں۔ ہم شاید فرض کر لیتے ہیں کہ کل بھی یہ شے اسی قیمت پر دستیاب ہو گی۔
جب کسی ناگہانی کے سبب ٹکے سیر بکنے والی جنس چاندی کے بھاؤ بکنے لگتی ہے تو پھر یاد آتا ہے کہ کاش پہلے ہی سے قیمت طے کر کے لمبی مدت کی رسد کا معاہدہ کر لیا ہوتا تو آج ہنگامی طور پر منہ مانگی قیمت پر فلاں شے نہ خریدنا پڑتی۔ اس مجرمانہ کاہلی کا اور کوئی نتیجہ نہیں نکلتا سوائے اس کے کہ بروقت سمجھوتے کے عوض جو شے سو روپے میں اگلے پانچ یا دس برس کے معاہدے کے تحت مل سکتی تھی وہی شے اب نقد منڈی سے دو سو روپے میں اٹھانا پڑ رہی ہے۔ گویا قومی خزانہ نہ ہوا حلوائی کی دکان ہو گئی کہ جب چاہیں دادا جی کی فاتحہ دلوا لیں گے۔
سیانے ممالک ایسی کاہلی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ان کی نگاہیں اگلے بیس پچیس برس کے اتار چڑھاؤ پر رہتی ہیں اور اسی اعتبار سے وہ قومی مفاد میں مختصر اور طویل المیعاد سمجھوتے بھی کرتے ہیں۔ مثلاً چین کو ہی دیکھ لیجیے۔ ایران سے تیل اور گیس کی درآمد کا پچیس سالہ معاہدہ کیا گیا ہے۔
اس کے عوض ایران اگر آج کے نرخوں پر چین کو تیل اور گیس اگلے پچیس برس تک فراہم کرے گا تو بدلے میں چین بھی ایرانی تیل اور گیس کی صنعت کی جدت کاری کے لیے سرمایہ فراہم کرے گا۔ بھارت بھی کم و بیش اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ چین اور بھارت اس وقت افریقہ کے ہر اس ملک سے طویل المیعاد سمجھوتے کر چکے ہیں جو قدرتی و معدنی وسائل سے مالامال ہیں۔
کچھ ایسی ہی حکمت عملی روس کے بارے میں بھی ہے۔ روس کو اس وقت یوکرین پر فوج کشی کے جرم میں مغرب کی تادیبی پابندیوں کا سامنا ہے اور مستقبل قریب میں ان کے خاتمے کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ چنانچہ چین نے نہ صرف روس سے تیس فیصد کم قیمت پر تیل خریدنے کا فیصلہ کیا بلکہ سائبیریا میں روسی تیل کی صنعت میں خلا دیکھ کر سرمایہ کاری کا ڈول بھی ڈال دیا۔ جب تک جنگ ختم ہو گی تب تک چین روس کے قدرتی وسائل کے اثاثوں میں اتنی سرمایہ کاری کر چکا ہو گا کہ ممنون روس کی جانب سے مستقبل میں بھی اس کی سپلائی محفوظ رہے گی۔
بدلتی دنیا میں مغرب نے روسی تیل اور گیس کے بائیکاٹ کے بعد اب متبادل ممالک اور ذرایع کی جانب دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ مغرب کی اس طویل المیعاد ضرورت کو دیکھتے ہوئے تیل اور گیس پیدا کرنے والے عرب اور افریقی ممالک نیز انڈونیشیا کی پیداوار کے نرخ بھی خودکار انداز میں بڑھ گئے ہیں۔
رعایتی تیل اور گیس کے زمانے لد گئے۔ اور اس مہنگائی کی دیکھا دیکھی اب شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے آلات کی مارکیٹ بھی اوپر ہی جائے گی۔ لہٰذا جس نے آج فیصلہ کر لیا وہ پھر بھی بچ گیا اور جو سوچتا رہ گیا وہ رہ گیا۔ مگر ہمارے پاس تو اب اتنا پیسہ بھی نہیں کہ اگلے چار مہینے سکھ سے گزر جائیں۔ چہ جائیکہ طویل المیعاد سمجھوتوں کی عیاشی۔ کیونکہ ان سمجھوتوں کے نتیجے میں بھی آپ کو وعدہ کردہ مقدار اٹھانی پڑے گی بھلے آپ کو ضرورت ہو نہ ہو پیسے ہوں نہ ہوں۔
ہمارے بچپن میں محلے کے بہت کم گھر ایسے تھے جہاں مہینے بھر کا سامان ایک ساتھ آتا تھا۔ زیادہ تر گھرانے روزانہ پرچون کی دکان سے چار آنے کی پتی، ایک روپے کا گھی اور آٹھ آنے سیر کا آٹا خریدا کرتے تھے۔ کیونکہ ان میں سے اکثر دیہاڑی دار تھے۔ روز کمانا روز کھانا۔
مجھے آج اپنا ملک اپنے پرانے محلے کا ہی ایک گھرانا لگتا ہے جس کی خواہش تو یہ ہے کہ مہینے بھر کا راشن رعایتی نرخوں پر لے لے مگر چار آنے کی پتی سے آگے کی فی الحال سکت نہیں۔ آج کل کم بخت خوابوں کی تعبیر بھی خود ہی ڈھونڈنا پڑتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر