ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں سیاسی لٹریچر کی کمی ہونے کے ساتھ ایک بات یہ بھی ہے کہ سیاسی تاریخ مرتب نہیں ہو سکی جس کے باعث بہت سے نام تاریخ کی آنکھ سے اوجھل ہو گئے۔ ہمارے وسیب سے تعلق رکھنے والے ریاض ہاشمی ایک ایسی سیاسی شخصیت کا نام ہے جو کہ مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے شاگرد ہونے کے ساتھ ایک ایسے نامور سیاستدان تھے جن کی جدوجہد اور کارنامے تاریخ کا حصہ ہیں۔ ریاض ہاشمی اینٹی ون یونٹ کمیٹی کے فعال رکن تھی اور انہوں نے باچا خان، میر غوث بخش بزنجو، جی ایم سید، رسول بخش تالپور، عبدالصمد خان اچکزئی ، مولانا عبدالحمید بھاشانی و دیگر سے مل کر محروم و پسماندہ علاقوں کی ترقی اور پاکستان کے سیاسی نظام کی بہتری کیلئے کام کیا۔ریاض ہاشمی نے ریاست بہاولپور کو پاکستان میں ضم کرنے کے معاملے پر نواب آف بہاولپور کے خلاف رٹ دائر کی کہ بہاولپور کی ریاستی اسمبلی موجود تھی اسمبلی کی منظوری کے بغیر امیر آف بہاولپور کو اس بات کا اختیار نہیں کہ وہ ریاستی عوام کی تقدیر کا فیصلہ کریں ،انہوں نے موقف اختیار کیا کہ ریاست کے مالک وہاں کے باشندے ہوتے ہیں ، سربراہِ مملکت کی حیثیت محض ایک امین کی ہوتی ہے ،مالکوں کی اجازت اور رضا مندی کے بغیر اگر ریاست کا امین کوئی فیصلہ کرتا ہے تو یہ امانت میں خیانت ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ ریاض ہاشمی کی استدعا نہ سنی گئی مگر انہوں نے اپنا تاریخی اور اصولی موقف تاریخ کے صفحات پر ریکارڈ کرا دیا ۔ ریاض ہاشمی بہت بڑی سیاسی تاریخ تھے ،وہ اکثر مجھے واقعات سناتے ،ریاض ہاشمی نے ایک مرتبہ بتایا کہ سرائیکی صوبہ محاذ ہم نے بھٹو صاحب کے کہنے پر بنایا، ان کا کہنا تھا کہ ایک نعرہ سنتے تھے ’’بھٹو جیوے تے صدر تھیوے‘‘ بھٹو صدر بن گئے۔ ایک دن اخبار میں خبر شائع ہوئی کہ بھٹو کراچی آ رہے ہیں ، میں بھی ائیر پورٹ پر چلا گیا، کراچی ائیر پورٹ پہنچنے کے بعد فرداً فرداً وہ سب سے ہاتھ ملاتے آئے، مجھ سے مصافحہ کیا تو کہا ۔اوہو ، اچھا ہوا ہاشمی تم آ گئے، تم نے میرے ساتھ لاڑکانہ چلنا ہے۔ ہاشمی صاحب کہتے ہیں میں تو خود یہی چاہتا تھا کہ ملاقات ہو، ائیر پورٹ پر ملاقاتیں مکمل ہوئیں، شام کے بعد جہاز موہنجوداڑو ائیر پورٹ پر اُترا اور ہم ان کے گھر المرتضیٰ ہائوس پہنچ گئے۔ بھٹو صاحب نے مجھے کہا کہ ادھر میٹنگز اور ملاقاتیں ہیں مگر دیر سے سہی میں آپ کے پاس آئوںگا، انتظار کرنا۔ ہاشمی صاحب نے بتایا کہ رات 12بجے کے بعد میری بے چینی میں اضافہ ہو گیا کہ خدا نہ کرے کہ ان کو بات بھول گئی ہو تاہم ساڑھے 12بجے کے بعد بھٹو صاحب آ گئے اور مجھے کہا کہ میں تھکا ہوا ہوں، مجھے پتہ ہے کہ آپ مجھے بہاولپور صوبے کا کہیں گے مگر میں نے تم کو یہ بات بتانی تھی کہ میری پہلی عسکری میٹنگ میں مجھے بتایا گیا تھا کہ "No Bahawalpur Province”۔ تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بہاولپور صوبے کی بجائے تم لوگ اپنی تہذیبی ، ثقافتی اور جغرافیائی حدود پر مشتمل صوبے کی بات کرو۔ ریاض ہاشمی صاحب نے بتایا کہ مجھے بات فوراً سمجھ آ گئی ، ان دنوں میری کتاب "Brief of Bahawalpur Province”چھپائی کیلئے تیار تھی، میں نے اس کا پیش لفظ بدل دیا اور آخر صفحہ پر بھی سرائیکی صوبے کے ڈیمانڈ کرتے ہوئے سرائیکی صوبے کا نقشہ لگا دیااور بہاولپور کی بجائے سرائیکی صوبے کی تحریک شروع کر دی۔ ریاض ہاشمی کے ساتھ گزری کچھ یادوں کا ذکر کروں گا کہ ہم نے 1980ء میں خان پور میں دھریجہ پریس کا آفس قائم کیا، ہاشمی صاحب کراچی سے خان پور آتے ، ملاقات ہوتی ، جب بھی خان پور آتے ان کا کیمپ آفس دھریجہ پریس خان پور ہوتا ۔ ریاض ہاشمی اپنا قیمتی وقت نکال کر زیادہ عرصے کیلئے خانپور اس لئے آئے کہ ان کے والد کی جائیداد پر قبضے ہو چکے تھے ، مزارعین اور ٹھیکیدار مالک بن بیٹھے تھے ‘ ریاض ہاشمی مرحوم نے عدالتوں میں مقدمات قائم کئے ‘ وہ بہت عرصہ کیس لڑتے رہے مگر ان کی زندگی میں ان کو انصاف نہ مل سکا ۔ وہ دیر سے اٹھتے ، میں ان کیلئے کھانا لے جاتا ، ان کا ناشتہ اور دوپہر کا کھانا ایک ہی ہوتا ، ان کے گھر میں ادویات کی بو بہت زیادہ تھی ، میں ان سے کہتا کہ کوٹھی تبدیل کریں مجھے تو خطرہ ہے کہ ادویات کی بو سے کہیں آپ انا للہ نہ ہو جائیں ، وہ کہتے کوٹھی فروخت کر رہا ہوں مگر کوئی خریدار نہیں ، بہت عرصہ بعد یہ کوٹھی سرائیکی موومنٹ کے رہنما میاں سجاد رحمانی نے خریدی ، اس جگہ کو اب بھی تاریخی حیثیت حاصل ہے کہ ریاض ہاشمی کے والد ڈاکٹر فیض الحسن المعروف ڈاکٹر بگا کا یہاں پرائیویٹ ہسپتال بھی تھا اور ریاست بہاولپور کے علاوہ دیگر علاقوں کے صاحب حیثیت لوگ علاج کی غرض سے ان کے پاس آتے تھے۔ ڈاکٹر فیض الحسن کی وفات کے بعد ریاض ہاشمی نے اس کوٹھی کو سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنایامگر ان کی مجبوری یہ تھی کہ وہ کراچی میں وکالت کرتے تھے اس بنا پر انہوں نے یہ کوٹھی فروخت کی۔ مجھے یاد ہے سرائیکی صوبہ محاذ کے اجلاسوں میں شرکت کیلئے ہم بہاولپور جاتے تو اکثر اوقات پہلے احمد پور شرقیہ رکتے ، سیدھے افضل مسعود صاحب ایڈوکیٹ کے چیمبر میں جاتے ۔ افضل مسعود صاحب ہمیں دیکھتے ہی چنے چھولے والے کو اشارہ کرتے ، پلاؤ چنے اور الگ پلیٹ میں زردہ آ جاتا ، پھر چائے آ جاتی ۔ پھر افضل مسعود صاحب ہمارے ساتھ بہاولپور کیلئے چل پڑتے ۔ میں نے دیکھا کہ افضل مسعود صاحب ہمیشہ ریاض ہاشمی کے پاؤں چھو کر ملتے اور بہت زیادہ احترام کرتے اور افضل مسعود صاحب جو قد آور سیاسی شخصیت اور بہت بڑے لائر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم عہدے پر تعینات تھے ، ریاض ہاشمی صاحب کو اپنا سیاسی قائد مانتے، اسی طرح ریاض ہاشمی صاحب بھی ان کی بہت قدر کرتے،ایک مرتبہ انہوں نے کہا کہ افضل مسعود صاحب علم اور صاحب بصیرت انسان ہیں، بہت سی یادیں ہیں، ایک بات یہ ہے کہ ریاض ہاشمی صاحب ایسٹ انڈیا لائبریری لندن سے سندھ سے بمبئی علیحدگی کا مقدمہ فوٹو کاپی کروا آئے تھے اور اس کا اردو ترجمہ میرے کزن طارق دھریجہ کاتب سے لکھواتے تھے ۔ ’’سرائیکستان‘‘ کے نام سے کتاب لکھ رہے تھے ، کتابت بھی کرا لی تھی مگر ان کا یہ مسودہ گم ہو گیا یا چوری ہوا اس کا وہ خود بھی بہت افسوس کرتے تھے ۔ ریاض ہاشمی کی تاریخ پیدائش 1925ء ہے اور وفات 3 جولائی 1988ء ہے،آپ اپنے آبائی قبرستان بہاولپور میں اسودہ خاک ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر