ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوٹلہ سیداں ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والی سرائیکی کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں وفاقی اورخیبرپختون خوا کی حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا کہ ڈی آئی خان اور ٹانک کے مسئلے حل کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ کانفرنس میں کہا گیا کہ مقامی لوگ بے روزگارہونے کے ساتھ ساتھ عدم تحظ کا بھی شکار ہیں۔ تحریک انصاف کے دور میں بھی انصاف نہیں مل رہا وسیب کے لوگوں سے دوسرے درجے کا سلوک ہو رہا ہے ممبر صوبائی اسمبلی احمد کریم خان کنڈی ودیگر مقریرین نے وسیب کے اہم اضلاع ڈی آئی خان وٹانک کی تاریخی حثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ خطے کے خوبصورت علاقے دامان کے حوالے سے تاریخی کتب کا مطالعہ کریں تو حیران کن شواہد سامنے آتے ہیں۔ مشی گن یونیورسٹی کے جیالوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے امریکی ماہرین ڈاکٹر فلپ کنگرچ اور ڈاکٹر کلائیڈ کی ٹیم نے 1994ء میں پاکستان کے ماہرین سے مل کر دامان پر سروے کیا تو حیران کن نتائج سامنے آئے۔ ایک تو یہ کہ اس خطے میں کسی وقت سمندر موجود تھا ، دوسرا یہ کہ اس علاقے کی کھودائی سے آبی جانوروں کی ہڈیاں دریافت ہوئیں جن کی عمروں کا اندازہ 5 کروڑ سال لگایا گیا۔ انہی علاقوں سے بہری جہازوں سے بڑھ کر وُسعت رکھنے والی وہیل مچھلیوں کے ڈھانچے برآمد ہوئے۔ ان کے سروے سے پوری دنیا کے ریسرچ سکالر حیران رہ گئے ۔ اگر پورے خطے کی تحقیق کی جائے تو بلا شبہ یہ خطہ کائنات کے قدیم ترین خطوں میں سر فہرست ہوگا۔ سندھ اور دریائے جہلم کے درمیانی علاقے کو سندھ ساگر دوآب کہا جاتا ہے، جہلم اورچناب کے درمیانی علاقے کو چچ دوآب کہاجاتا ہے، اسی طرح چناب اور راوی کے علاقے کو رچنا دوآب کا نام دیا جاتا ہے۔ ہاکڑہ ، سرسوتی کی طرح ستلج راوی بھی ماضی کی یاد گاریں بنتے جا رہے ہیں۔ وسیب کے دریائوں کو فروخت کر کے وسیب پر ظلم کیا گیا۔ وہ عظیم سرائیکی خطہ جو سب کو پانی دیتا تھا آج خود پیاسہ ہے اور یہ بھی الگ المیہ ہے کہ دامان ہو اور تھل یا چولستان ہو ، جس جس علاقے میں نہریں پہنچ رہی ہیں رقبے پہلے سے غیروں کو دے دیئے گئے اور جو رقبے کسی وجہ سے مقامی لوگوںکے پاس بچ گئے تو پھر ہیرا پھیریوں کے ساتھ ساتھ معاشی دہشت گردی کے ذریعے وہ رقبے مقامی لوگوں سے چھینے جا رہے ہیں اور باہر سے آ کر جو لوگ دھرتی اور وسائل لوٹ رہے ہیں ان کی حمایت نسل اور زبان کی بنیاد پر وہ لوگ بھی کر رہے ہیں جو مذہب کا جھنڈا اُٹھا کر انصاف کا درس دیتے ہیں۔ محمود غزنوی کے دور سے لے کر آج تک خیبر پختونخوا میں یہی کچھ ہوتا آ رہا ہے۔ 11ویں صدی عیسوی میں محمود غزنوی کے حملوں کی وجہ سے سرائیکی وسیب کو سب سے زیادہ نقصان ہوا، پورے دامان کو ویرانے میں بدل دیا گیا،قدیم قلعہ جات مسمار ہوئے اور ہزاروں و لاکھوں انسانوں کو قتل کر دیا گیا اور سومنات کے مندر کو بہادری کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ 10ویں اور 11ویں صدیں میں غزنوی حملوں کی وجہ سے وسیب کی زیادہ آبادی موت کے منہ میں چلی گئی اور جو لوگ بچ گئے وہ اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور پھر بہت عرصہ بعد وسیب کے لوگ اپنے گھروں کو واپس آئے اور سہراب خان بلوچ نے 11 ویں صدی عیسوی میں نئے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کی بنیاد رکھی۔پھر عظیم سرائیکی قوم نے آہستہ آہستہ محنت کر کے اپنے اُجڑے ہوئے وسیب کو پھر سے سر سبز و شاداب بنانا شروع کیا ۔ یہ کتنا ظلم ہے کہ وہ خطہ جو ایک ہزار سال سے حملہ آواروںکا شکار چلا آ رہا ہے کو انگریزوںنے پھر سے ایک بار باقاعدہ طورپر صوبے کی شکل میں ان کے حوالے کیا ،جواپنی انتظامی مشینری کے ذریعے وسیب کے لوگوں کو آہستہ آہستہ اقلیت میں تبدیل کرتے آ رہے ہیں ۔ وہ سرائیکی زبان جو بنوں، کوہاٹ، وانا وزیرستان اور قابل قندھار تک کی مقامی زبان تھی اب اُسے آہستہ آہستہ صرف تھوڑے سے علاقے تک محدود کر دیا گیا ہے۔ میں جنگ آزادی میں انگریز کے خلاف جدو جہد کرنے والے اے این پی ، جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی کے اکابرین سے پوچھتا ہوں کہ ایک طرف انگریز کو گالیاں دیتے ہو ، دوسری طرف انگریزوں کی کھینچی گئی ان لکیروں کو ختم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے جس کے باعث دھرتی کے اصل وارث ہندکو اور ہزارہ وغیرہ کوغلام بنا دیا گیا ، یہ دہرے معیار کس سوچ کی عکاسی کرتے ہیں؟ کہ اسلامی سوچ قطعی طور پر اس کی اجازت نہیں دیتی۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے بہت سے لوگوں کو دمانی کہا جاتا ہے ۔ جبکہ پشتون اعانت کے طور پر جٹ یا جٹان کے نام سے پکارتے ہیں، حالانکہ جٹ بمعنی کاشتکار بہت احترام والا لفظ ہے ، چونکہ پشتون پہاڑوں میں رہنے والے لوگ ہیں وہ کاشتکاری کس طرح کریں؟ ایک طرف وہ زرخیز دھرتی کو دیکھتے ہیں ۔ خیبر پختونخوا کے سابق وزیراعلیٰ اکرم درانی نے ڈیرہ اسماعیل خان سے بنوں کو چھیننے کے لئے اُسے الگ ڈویژن کا درجہ دیا تو نہایت ہی ڈھٹائی کے ساتھ یہ نعرہ بلند کیا کہ ’’میںنے بنوں کی ڈی آئی خان کے جٹان سے جان چھڑائی ہے‘‘۔حالانکہ جو اس طرح کی باتیںکر رہے ہیںوہ کتنے مہذب ہیں ؟ اس پر کلام کرنے سے پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دامان ہمیشہ عظیم رہا ہے، اس کی اپنی تہذیب ہے اور اپنی ثقافت ہے۔ یہ خطہ کم از کم چھ ہزار سال سے اپنی زرخیزاور بہترین دھرتی اور اس پر مقدس دریائوں کے ذریعے کم از کم چھ ہزار سال سے انسانوں کے لئے اناج اور خوراک کا انتظام کرتا آ رہا ہے ۔ لیکن اگر اس کی تاریخ پر غور کریں گے تو پورا خطہ ابتدائی انسانی آبادی کا موجد ٹھہرے گا اور تحقیق پر بلا شبہ یہ بات ثابت ہوگی کہ یہ وہ خطہ ہے جہاں انسان نے اپنے دو پائوں پر چلنا سیکھا۔
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر