نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎‎دو انگلیاں کہوں یا دو آنکھیں؟||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

زیر جامہ اتار کے ایک میز نما کاؤچ پہ لیٹ کے کسی اجنبی، سخت گیر اور چہرے پہ بنا کسی تاثرات والی ڈاکٹر کی دو انگلیاں اور ضرورت کے تحت سپیکیولم نامی اوزار کو وجائنا میں برداشت کرنا نہ صرف جذباتی ہیجان پیدا کرتا ہے بلکہ انتہائی تکلیف دہ بھی ہے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو انگلیاں کہوں یا دو آنکھیں؟
ہسپتال کے لیبر روم سے فون تھا،
ڈاکٹر صاحب، کمرہ نمبر چار کی مریضہ کے درد زہ ( labour pains ) بہت ہلکے ہیں“
ڈیوٹی نرس اطلاع دے رہی تھیں،
کیا تم نے پی وی ( per vaginum) کی؟“ ہم نے پوچھا
جی پی وی پہ صرف پانچ سینٹی میٹر ہے“
”چلیے پھر ایسا کیجیے کہ کہ سنٹو کی ڈرپ شروع کیجیے اور مجھے دو گھنٹے بعد بتائیے گا“
جی بہتر“
ایسا اکثر ہوتا اور کچھ گھنٹوں بعد کچھ ایسی اطلاع آ جاتی،
ڈاکٹر جی، مریضہ فلی ہو گئی ہے آ جائیے“
پی وی، سنٹو اور فلی کا کھیل کھیلتے کھیلتے ہماری آنکھیں تب کھلیں جب ایک دن ہم ایسے ہی کسی فون کے بعد ہسپتال پہنچنے کے لئے تیزی سے کوٹ پہن رہے تھے کہ پاس کھیلتی ننھی ماہم نے سوال کیا
” اماں کہاں جا رہی ہیں؟“
�”ہسپتال بیٹا“
�”کیا پیشنٹ فلی ہو گئی؟
“ معصومیت بھرا سوال تھا۔
�ہمیں ایسا جھٹکا لگا کہ گرتے گرتے بچے۔ بمشکل حواس مجتمع کرتے ہوئے بولے، بیٹا آپ کو کیسے علم ہوا؟
”وہ آپ ہر وقت فون پہ کہتی رہتی ہیں نا۔ فلی، سنٹو، پی وی تو میں نے بھی سیکھ لیا اور مجھے علم ہے کہ فلی پہ آپ دوڑ کے ہسپتال پہنچتی ہیں“
اس دن علم ہوا کہ بچے چاہے کم عمر ہی کیوں نہ ہوں گھر میں کہے گئے ہر لفظ کو اپنے دل پہ نقش کیا کرتے ہیں۔ (آپس میں جھگڑنے والے والدین کے لئے لمحہ فکریہ )
لاہور کورٹ میں دو انگلی معائنے کا ذکر ہوا اور ہر طرف چرچا بھی خوب تھا تو سوچا کہ کیوں نہ لکھ ہی دیا جائے کہ اصل میں ہے کیا یہ مشہور زمانہ یا دوسرے الفاظ میں بدنام زمانہ دو انگلیوں سے کیا جانے والا معائنہ!
وہ زمانے لد گئے جب بچوں کو یہ بتایا جاتا تھا کہ رات کو گھر میں پریاں اتری تھیں اور ایک ننھا مہمان چھوڑ گئیں۔ یا پھر ایک پرندہ اپنی چونچ میں چھوٹا بے بی تحفے کے طور پہ لایا۔ نئے ہزاریے کے بچے ان کہانیوں کے بعد پوچھا کرتے ہیں کہ آپ کا مطلب ہے ہمارے خاندان میں کوئی بھی نارمل انداز سے پیٹ میں نو ماہ گزار کے سیدھے راستے سے پیدا نہیں ہوا؟
مرد اور عورت کی جسمانی ہیئت میں فرق محض اتنا ہے کہ دونوں کے تولیدی اعضاء ان کی کارکردگی کے لحاظ سے مختلف بنائے گئے ہیں۔
خاتون میں بیضہ دانی ( ovary ) رحم (uterus) اندام نہانی ( وجائنا ) جبکہ مرد میں خصیے ( Testicles) اور عضو تناسل ( penis ) ، جبکہ مثانہ ( urinary bladder ) اور مقعد ( Anus) دونوں میں ایک جیسے ہیں۔
رحم اور اس کا منہ جو کہ سروکس (cervix) کہلاتا ہے نہ صرف بہت اہمیت کے حامل ہیں بلکہ بہت سی موذی بیماریوں کا آغاز بھی انہی سے ہوتا ہے۔ رحم اور سروکس کو جانچنے کا طریقہ سپیکیولم اور الٹرا ساؤنڈ کی آمد سے قبل کچھ اور نہ تھا سوائے ان دو انگلیوں (انگشت شہادت اور درمیانی انگلی ) کے جو ویجائنا میں ڈالی جاتیں اور رحم اور سروکس کو چھو کے اندازہ لگایا جاتا۔ بنیادی طور پہ یہ ایک ایسا طریقہ کار تھا اور ہے جس میں ڈاکٹر یا نرس اپنی دو انگلیوں کی مدد سے اخذ کردہ معلومات پہ انحصار کرتی ہیں۔
اب انگلیاں موٹی اور سخت ہوں یا نازک اندام اور نرم و لچکدار، مخروطی ہوں یا چھوٹی ناٹی، ان کا بوجھ مریضہ ہی کو سہارنا پڑتا ہے۔ ہم ہمیشہ اپنے مریضوں کو کہا کرتے ہیں کہ ہماری دو آنکھیں تو چہرے پہ ہیں مگر دو آنکھیں ہماری ان دو انگلیوں پہ بھی ہیں جو ہمیں ان دنیاؤں کا احوال سناتی ہیں جن تک چہرے پہ موجود آنکھ نہیں پہنچ پاتی۔
سپیکیولم اور الٹرا ساؤنڈ کی آمد کے بعد کچھ نہ کچھ کامیابی تو ہوئی کہ رحم اور سروکس کو اوزار اور مشین کی مدد سے دیکھنا ممکن ہوا مگر سروکس کی بے شمار تکلیفیں ایسی ہیں جن کی تشخیص کے لئے انگلی پہ لگی آنکھ اور چہرے پہ لگی آنکھ کو مل جل کے کام کرنا پڑتا ہے۔ سروکس کا سرطان بہت ہی عام ہے اور تشخیص میں تاخیر محض اس لئے ہو جاتی ہے کہ خواتین سروکس کے معائنے سے ہچکچاتی ہیں جو سپیکیولم اور انگلیوں کی مدد سے کیا جاتا ہے۔
اور ہچکچاہٹ کی وجہ بھی تو ہے!
زیر جامہ اتار کے ایک میز نما کاؤچ پہ لیٹ کے کسی اجنبی، سخت گیر اور چہرے پہ بنا کسی تاثرات والی ڈاکٹر کی دو انگلیاں اور ضرورت کے تحت سپیکیولم نامی اوزار کو وجائنا میں برداشت کرنا نہ صرف جذباتی ہیجان پیدا کرتا ہے بلکہ انتہائی تکلیف دہ بھی ہے۔
ان دو انگلیوں کو قطعی طور پہ جماع ( intercourse ) کے مساوی قرار نہیں دیا جا سکتا جہاں خاتون جذباتی طور پہ نہ صرف پرسکون ہوتی ہے بلکہ اردگرد کا ماحول بھی خواہش کے مطابق ہی ترتیب دیا گیا ہوتا ہے۔ نارمل جذبات بھرے جماع اور غصے اور بے کسی سے لبریز ریپ اور اس کے بعد پیش آنے والے اذیت ناک معائنے کا موازنہ کرنا کسی طور درست نہیں۔
واللہ یقین کیجیے کہ ہمیں اپنے پہلے معائنے کی تکلیف اور آنسو آج تک یاد ہیں اگرچہ ہم شادی شدہ زندگی میں داخل ہو چکے تھے اور بے شمار مریضوں کو اپنی انگلیوں کا شکار بھی بنا چکے تھے۔ اس معائنے کے بعد علم ہوا کہ اس میں کتنی اذیت پائی جاتی ہے لیکن معلوم تھا کہ متعدد مواقع پر اس کا کوئی متبادل نہیں۔
ایسا ہی ایک موقع بچے کی ولادت کا ہے۔ بچہ رحم میں پرورش پا چکا ہے اور اب وقت ہے کہ وہ اس جہان فانیٔ میں قدم رکھے۔ اس کے لئے اسے دس سے بارہ گھنٹے کا سفر طے کرنا ہے جہاں اس کی مدد کے لئے بیرونی دنیا میں لوگ موجود تو ہیں لیکن بنیادی ساتھی ماں ہی ہے جو درد زہ سہنے کا بیڑہ اٹھاتی ہے۔
درد زہ کا آغاز رحم سے ہوتا ہے اور پھر یہ درد پیٹ اور کمر میں وقفے وقفے سے پھیلتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پیٹ میں ایک تیز دھار خنجر اندر تک چیر رہا ہے۔ یقین کیجیے کہ اس سے زیادہ تکلیف دہ امر دنیا میں کچھ اور نہیں جہاں صرف یہ محسوس ہوتا ہے کہ عورت ایک درد کے صحرا میں آگ برساتی دھوپ میں پا پیادہ ایک ایسا سفر کر رہی ہے جہاں موت اور زندگی ایک دوسرے پہ سبقت لے جانے کی کوشش ساتھ ساتھ رواں دواں ہیں اور کچھ علم نہیں کہ جیت کس کی ہو گی؟
کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ عورت ایک اندھے کنویں میں الٹی لٹکی ہوئی ہے۔ جہاں کوئی ظالم اس کے بطن پہ ایک ایسا کوڑا برساتا ہے جو نہ صرف اس کی جلد ادھیڑ دیتا ہے بلکہ ہر ضرب کی اذیت اور تڑپ یہ خواہش پیدا کرتی ہے کہ اس عمل کا کسی بھی طرح انت ہو جائے چاہے موت ہی کیوں نہ ہو۔
ہماری بڑی صاحبزادی اسی تجربے کے ساتھ دنیا میں تشریف لائیں اور تب تک ہم پہ اتنا کچھ بیت چکا تھا کہ اگر چہ آس پاس خوشی سے دمکتے چہروں کے ساتھ مبارک سلامت کا غل تھا، مٹھائی بٹ رہی تھی، صدقے دیے جا رہے تھے۔ مگر ہم تھے کہ منہ سر لپیٹے، بیزار و بے حال ایک کونے میں لاتعلق پڑے تھے۔ نہ تو وہ شور و غل بھاتا تھا، نہ کسی سے مبارک بادی وصول کرنے کی چاہت تھی بلکہ بچی کو گود لینے کی خواہش بھی تھک ہار کے کہیں منہ چھپا چکی تھی۔
بات ہو رہی تھی انگشت سے معائنے کی تو دوران درد زہ ضرورت پڑتی ہے کہ سروکس کا معائنہ کیا جائے کہ اس کا در کس حد تک کھل چکا ہے۔ بچہ اس وقت تک نیچے کی طرف نہیں بڑھ سکتا جب تک سروکس دس سینٹی میٹر نہ کھل جائے۔ سو ان سینٹی میٹروں کی جانچ کرتی ہیں وہی دو انگلیاں جن کی ہر پور پہ ڈاکٹر کے برسہا برس تجربات رقم ہوتے ہیں۔
‏سروکس کی پوزیشن، ماہیت، طوالت اور کھلے ہونے کا فیصلہ کرہ ارض پہ کوئی مشین یا کوئی اوزار نہیں کر سکتا اور اس کے لئے صرف اور صرف پی وی کا عمل کام آتا ہے۔ وہی پی وی نامی لفظ جو ہماری صاحبزادی ہم سے سن سن کے سیکھ چکی تھیں۔ پی وی مخفف ہے per vaginum نامی اصطلاح کا جس کا مفہوم ویجائنا سے گزر کے سروکس کا انگلی کی آنکھ سے معائنہ کرنا ہے۔
‏سروکس اور ویجائنا کے معائنے میں فرق یہ ہے اگر وجائنا میں کوئی زخم ہو اور معائنہ درکار ہو تو اس کے لئے سپیکیولم استعمال کرتے ہوئے اپنی آنکھ ہی سے سب کچھ دیکھا جاتا ہے، انگلی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اسی طرح ہائمن کا معائنہ بھی انگلی لگائے بغیر آنکھ سے دیکھ کے کیا جاتا ہے۔ سپیکیولم کا استعمال تب جائز ہے جب وجائنا کے اندر سے خون بہہ رہا ہو اور وہاں تک اپروچ مشکل ہو۔
اس سپیکیولم کی بھی ایک کہانی ہے جو ہم آپ کو پھر کبھی سنائیں گے۔ آج اتنا جان لیجیے کہ انسانی جسم کے اندر کے حال کو سمجھنا اور اس کا صحیح علاج کرنا ایک عمر کا تجربہ مانگتا ہے۔
جیسے ایک اناڑی مکینک مہنگی گاڑی کا ستیا ناس مار سکتا ہے، ناتجربہ کار درزی قیمتی لباس کا بیڑا غرق کر سکتا ہے، کند ذہن وکیل پھانسی کے پھندے پہ لٹکا سکتا ہے بالکل ویسے ہی ایک لاپروا ڈاکٹر انسانی جسم کی حرمت مٹی میں ملا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author