جو چورن اُن کے ہاتھ لگا ہے اُن کے چاہنے والے اُس پر بھر پور یقین کر رہے ہیں۔۔۔ وجہ عمران خان صاحب کا وہ اعتماد ہے جس کو فُل نمبر ملنے چاہئیں۔ یہ چورن کب تک بکے گا کوئی نہیں جانتا۔ یہ کیوں بک رہا ہے، یہ سب جانتے ہیں۔
عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھنا یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کے حامیوں کے علاوہ دیگر جماعتوں کے ووٹر بھی تحریک انصاف کے بیانیے سے متاثر ہو رہے ہیں یا پی ٹی آئی کی کارکردگی سے مایوس لوگ دوبارہ لوٹ کر آ رہے ہیں۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ امریکہ مخالف جذبات کو جس طرح اپنی حمایت میں استعمال کیا جا رہا ہے یہ کس قدر دیر پا ہو گا اور کیا یہ حمایت ووٹ کی طاقت میں بدلی جا سکے گی۔۔۔ یہ سوال بے حد اہم ہے۔
حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کا نظریاتی ووٹ بینک کم نہیں ہے لیکن گزشتہ ایک ماہ میں ان حکومتی جماعتوں نے اپنے کارکنوں کو مخالف بیانیہ نہیں دیا۔ سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والی منفی اور بے بنیاد مہم کی روک تھام کے قانونی پہلو بھی نہیں آزمائے گئے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے اسکینڈلز پر بھی تحقیقات کا آغاز نہیں ہوا۔
ایسے میں عمران خان ہر لائحہ عمل میں ایک قدم آگے دکھائی دے رہے ہیں یہاں تک کہ گرفتاری کی صورت میں ملک کو جام کرنے کا فیصلہ بھی کر چُکے ہیں اور اب وہ اپنی سیاسی تحریک کو ‘جہاد’ کا نام دے رہے ہیں۔ سیاست اور پھر مذہب کا تڑکہ وہ خطرناک کارڈ ہے جس کا توڑ صرف ریاست کے پاس ہے۔
معاشی اور سیاسی اعتبار سے پاکستان جس بحران کا شکار ہے وہ نا صرف عدم استحکام بلکہ تصادم کی صورت اختیار کر سکتا ہے جس کی ایک مثال سری لنکا ہے جو معاشی بحران کے بعد اب سیاسی اور ریاستی بحران کی جانب بڑھ چکا ہے۔۔۔ عوام سڑکوں پر ہیں، ادویات اور اشیائے خورد و نوش کی قلت ہو چکی ہے جبکہ حکومت مخالف مظاہروں اور جھڑپوں میں شریک نوجوانوں کی بڑی تعداد سوشل میڈیائی کارکنوں کی ہے۔ اس سلسلے میں خان صاحب کو ہلکا لینا قطعی طور پر بے وقوفی ہو گی۔
نئی حکومت کے لئے کئی ایک چیلنجز ہیں جہاں آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ایک طرف اور مہنگائی دوسری طرف جبکہ بحران میں پھنسی سیاسی جماعتیں جن کے نازک کندھوں پر معیشت، سیاست اور خان صاحب کی کارکردگی کا بوجھ بھی آن پڑا ہے۔
حالات اُس نہج پر آ چکے ہیں جہاں خان صاحب نے حالات سدھرنے نہیں دینے اور نہ ہی نظام چلنے دینا ہے۔ ریاست سوشل میڈیا کے ہوے کا شکار ہو گئی ہے جبکہ اُسے خوف سے نکل کر آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہوں گے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ