ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں تو پانی عالمی مسئلہ ہے مگر قومی حوالے سے دیکھا جائے تو شہروں میں پانی کی صورتحال روزبروز ابتر ہوتی جا رہی ہے اور دیہات میں تو یہ مسئلہ گھمبیر شکل اختیار کر چکا ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ دیہات میں جا کر دیہات کے مسائل کا پتہ چلتا ہے، دو دن اپنے گائوں دھریجہ نگر رہا ، گندم کی فصل تقریباً اٹھا لی گئی ہے اور کپاس کی بجائی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ، کپاس کی بجائی کیلئے پانی کی سخت ضرورت ہوتی ہے، مگر ہوتا یہ ہے کہ خریف کی فصل کے موقع پر سرائیکی وسیب میں نہری پانی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، کاشتکار مجبوراً ٹیوب ویل کا سہارا لیتے ہیں مگر اس مرتبہ یہ دیکھنے میں آیا کہ ڈیزل نہیں مل رہا،پٹرول پمپوں پر ڈیزل کے حصول کیلئے کاشتکاروں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں، کاشتکار سخت پریشان ہیں۔
دھریجہ نگر میں مولانا یار محمد دھریجہؒ کا ڈیرہ مشہور ہے، بستی کے لوگ وہاں جمع ہوتے ہیں ، بستی کے حالات ، وسیب کے معاملات اور قومی سیاست پر خوب گفتگو ہوتی ہے، پہلے ریڈیو سنا جاتا تھا اور اخبار پڑھے جاتے تھے اب ڈیرہ پر اخبار بھی پڑھا جاتا ہے مگر زیادہ انحصار سوشل میڈیا پر ہے۔ مقصود دھریجہ نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے دورہ کوئٹہ کے موقع پر ٹیکنیکل یونیورسٹی، دو سو ارب کی لاگت سے خضدار کچلاک قومی شاہراہ کی تعمیر و دیگر منصوبوں کا اعلان کیا ، ادا دین محمد دھریجہ نے کہا کہ زرداری نے بھی آغاز بلوچستان حقوق کا اعلان کیا تھا ،کیا حکمران کبھی ہمارے وسیب کی طرف توجہ کریں گے۔
پانی کے حوالے سے بات ہو رہی تھی تو یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں دریائوں کو تہذیبوں کا مؤلد اور مسکن قرار دیا جاتا ہے ، بھارت میں دریائوں کو پوجا اور پرستش کا درجہ حاصل ہے ۔ ’’پانی کا نام زندگی اور زندگی کا نام پانی ‘‘ کے فلسفے کو سمجھنے والی قومیں دریائوں کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ارباب اختیار پاکستان کے قیام سے لیکر آج تک پانی کی اہمیت سے بے خبر ہیں ، یہی وجہ ہے کہ چند کوڑیوں کے عوض پاکستان کے تین دریائوں کا سودا کر دیا گیا ، پاکستان میں سرائیکی وسیب کو زیادہ اہمیت حاصل ہے کہ یہ خطہ سات دریائوں کا سنگم ہے ، پاکستان کے تمام دریا کوٹ مٹھن آ کر اکٹھے ہو جاتے ہیں،پانی کے سلسلے میں سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی کیلئے بھارت سے نتیجہ خیز مذاکرات کئے جائیں اور فروخت کئے گئے دریاؤں کیلئے پانی قیمتاً ہی سہی حاصل کیا جائے تاکہ ان دریائوں سے وابستہ لوگ اور یہاں کی تہذیب زندہ رہ سکے ۔
دریاؤں کی فروخت کے نتیجے میں لنکس کینالز کے ذریعے فروخت کئے گئے دریاؤں کو زندہ رکھنے کا جو مصنوعی فارمولا بنایا گیا تھا وہ بری طرح ناکام ہو چکا ہے، اس ناکامی کی بڑی وجہ پانی کو کنٹرول کرنیوالی اتھارٹیزہیں جو مرکز میں بیٹھی ہیں ان کی بے انصافی حرص اور لالچ کی وجہ سے کوئی بھی ان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ پانی جو کہ ایک خالص انسانی اور سماجی مسئلہ ہے اسے سیاسی بنا دیا گیا ہے اور اس پر سیاست کی جا رہی ہے ۔پانی کے مسئلے پر باتوں کو سیکولر ذہن کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔
سرائیکی وسیب سے منتخب ہونیوالے جاگیر دار ذہنی غلام اور ذہنی پسماندگی کا شکار ہیں ، پنجاب اسمبلی ، قومی اسمبلی یا سینٹ میں ’’عوامی نمائندے ‘‘تالیاں بجا کر واپس آ جاتے ہیں یہی حال پشاور اسمبلی میں ڈیرہ اسماعیل خان و ٹانک کی قیادت کا ہے،پانی کے مسئلے پر سب سے زیادہ نقصان کائنات ارضی کے زرخیز ترین خطے سرائیکی وسیب کا ہو رہا ہے ۔ میں نے دھریجہ نگر میں دیکھا کہ فصل خریف کی کاشت کیلئے ہر طرف پانی پانی کی صدائیں تھیں، پٹرول اور ڈیزل کی قلت وزیر خزانہ کے اس اعلان کے ساتھ شروع ہوئی کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ کاشتکار یہ بھی کہتے سنے گئے کہ وسیب کی نسبت اپر پنجاب میں پانی زیادہ ہے اور سندھ جو پانی کا حصہ حاصل کرتا ہے زیادہ تر ضائع کر دیتا ہے۔
سندھ والے یہ غلط فہمی دور کریں کہ نام کی نسبت سے دریائے سندھ پر سب سے زیادہ حق ان کا ہے اگر ایسا ہے تو دریائے جہلم پر بھی جہلم کے علاوہ کسی کا حق نہیں ہو سکتا ،اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنے قابل ہے کہ دریائے سندھ کے نام مختلف جگہوں پر مختلف ہیں ، جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا یہ دریا جہاں سے شروع ہوتا ہے وہاں اسے ’’اباسین‘‘ آگے اٹک ،اس سے آگے نیلاب ،سرائیکی وسیب میں سندھ اور سندھ میں اسے مہران کہا جاتا ہے ،جہاں سے یہ دریا شروع ہو رہا ہے وہاں بھی اس کا نام سرائیکی میں ’’ابا سئیں‘‘یعنی دریاؤں کا باپ ہے آغاز سے اختتام پر دونوں کناروں کے ساتھ ساتھ بولی جانیوالی زبان سرائیکی ہے مگر سرائیکی قوم کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کہے اس دریا پر حق ملکیت صرف ہمارا ہے تمام دریا جہاں جہاں سے گذرتے ہیں اس کے آس پاس رہنے والے اس کے مالک ہوتے ہیں، لہٰذا کسی ایک خطے یا ایک صوبے کی طرف سے ملکیت کے دعوے غلط ہیں ،پانی کا نام زندگی اورزندگی کا نام پانی ہے یہ سب کو ملنا چاہیے اور اسکی تقسیم ایماندرانہ طریقے پر ہو نی چاہیے۔
دھریجہ نگر میں شہداء فرید بہاولپور کی یاد میں تقریب تھی عثمان دھریجہ نے کہا کہ انصاف آج تک نہیں ملا۔آج ہی جسٹس فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں قتل کے ایک مقدمہ کے دوران کہا ہے کہ پاکستان میں انصاف بڑی بولی دینے والوں کیلئے بک رہا ہے؟۔ انہوں نے ایک اور خبر بھی پڑھی کہ سیالکوٹ میں گندم کی فصل کو آگ لگی ہے تو وزیر اعظم نے معاوضے کا حکم دیدیا ہے، سرائیکی وسیب میں اس طرح کے ہر آئے روز واقعات ہوتے ہیں کیا کبھی وسیب کے کاشتکار کو کوئی معاوضہ ملا ہے؟۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی کا نام بے انصافی ہے۔ وسیب کے لوگوں کو جب تک انصاف نہیں ملے گا مسئلے حل نہیں ہوں گے ، ابھی تک پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا مسئلہ لٹکا ہوا ہے اس کی وجہ پنجاب کا بڑا حجم ہے، حکمرانوں اور مقتدر قوتوں کو یہ بات مان لینی چاہئے کہ سرائیکی صوبہ بننے سے بہت سے قومی مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے ۔
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر