رانا ابرار خالد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسٹر عمران خان، آپ نے یہ کیونکر گمان کر لیا تھا کہ امریکی صدارتی انتخاب بھی شاید پاکستان کا الیکشن کمیشن کرواتا ہو گا، جس کو پونے چار سال تک آپ نے جوتے کی نوک پر رکھا، نہ صرف الیکشن کمیشن بلکہ آپ نے تو آئین اور قانون کو بھی اپنے جوتے کی نوک پر ہی رکھا۔ جہاں ہر انتخاب چاہے وہ گلگت بلتستان ہو یا کشمیر کا الیکشن، یا پھر کوئی ضمنی انتخاب بلکہ خیبر پختونخوا کا بلدیاتی انتخاب ہی کیوں نہ ہو، ہر مرتبہ الیکشن کمیشن چیختا رہ گیا، نوٹس جاری کرتا رہا کہ انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم پاکستان اور اس کے وزرا جلسوں اور ریلیوں سے خطاب نہیں کر سکتے مگر آپ نے جلسوں میں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا. یا پھر یہ کوئی توشہ خانہ ہے جس معلومات روکنے کے لئے قانون کی دھجیاں بکھیرنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
مسٹر عمران خان! ویسے تو آپ ہر وقت کہتے رہتے ہیں کہ امریکہ اور مغرب کو آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا لیکن یہاں آپ سے چوک ہو گئی، اگر ڈیموکریٹک حکومت نے امریکہ کے صدارتی انتخاب میں پاکستان کی مداخلت پر کوئی احتجاج یا ردعمل نہیں دیا تو ہرگز اس کا یہ مطلب نہیں کہ امریکہ نے اس قدر اہم بات کو بھلا دیا، بلکہ وہ مناسب موقع کا انتظار کر رہے تھے، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ موقع خود بخود ان کے پاس چل کر آئے گا۔ دراصل سپر پاور کی معراج پانے والے امریکہ کا یہی طریقہ کار ہے، پاکستان جیسے کمزور و طفیلی معیشت رکھنے والے ملکوں کو کنٹرول کرنے کے لئے!
مگر آپ نے تو حد ہی کردی، 24 فروری 2022 کو جب یہ یقینی ہو چکا تھا کہ روس اپنے ہمسایہ ملک یوکرائن پر حملہ کرنے والا ہے تو آپ نے سٹیبلشمنٹ کی چتاونی کے باوجود روس کے دورے کو ترجیح دی، حالانکہ امریکہ سمیت پوری دنیا یوکرائن پر متوقع روسی حملے کی شدید مخالفت کر رہی تھی اور کوئی بھی ملک روس کے حق میں نہیں بول پا رہا تھا، بھلا جارحیت کے حق میں کوئی بولتا بھی کیسے؟ حتیٰ کہ چین بھی نے خاموشی کو ہی بہتر سمجھا لیکن آپ نے (پہلے سے طے شدہ) دورہ ملتوی کرنے کی بجائے روس جانے کو ترجیح دی، اور روس نے یوکرائن پر حملہ کیا تو اس وقت آپ ماسکو میں موجود تھے۔
اہم سوال یہ ہے کہ دنیا بھر کی مخالفت مول لے کر پاکستان نے کیا پایا، چند ملین ٹن گندم کی امپورٹ کا معاہدہ، گندم امپورٹ معاہدے کو کامیابی کیونکر کہا جا سکتا ہے اگر کوئی ایکسپورٹ معاہدہ ہوتا تو پھر بھی ٹھیک تھا لیکن امپورٹ معاہدہ کرنا کون سا کارنامہ ہے۔ اگر گندم ہی درآمد کرنا تھی تو حکومت ایک ٹینڈر جاری کرتی اور دنیا بھر کے بیوپاری خود بخود کھنچے چلے آتے۔
سونے پر سہاگہ یہ کہ ہمارے وزیراعظم نے روسی جارحیت کے حوالے سے یورپی یونین کے سفیروں کے مراسلے کا عوامی جلسوں میں ٹھٹھہ اڑانا شروع کر دیا، محض اپنی مقبولیت کا گراف بڑھانے کے لئے۔ دیکھا جائے تو یورپی سفیروں نے وزیراعظم پاکستان سے یوکرائن کے خلاف روسی جارحیت کی مذمت کرنے کی درخواست کر کے ایسی کیا گستاخی کردی تھی کہ اس کو عوامی ایشو بنانے کی کوشش کی گئی۔ کیا ہمارا دفتر خارجہ ہر تین ماہ بعد اپنے سفیروں کو ڈائریکٹیو جاری نہیں کرتا کہ وہ جن ممالک میں تعینات ہیں وہاں کی حکومتوں کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کے لئے خط لکھیں۔ کیا کبھی کسی دوسرے ملک کے وزیراعظم نے پاکستانی سفیر کا خط لہرا کے اس طرح مذاق اڑایا؟
مسٹر عمران خان! کیا یہ وہی یورپی یونین نہیں جو کشمیر کے حق میں اپنی پارلیمنٹ سے قرارداد منظور کروا چکی ہے، اس وقت تو آپ کی حکومت یورپی یونین کے گن گاتی تھی اور یورپی پارلیمنٹ سے کشمیر کے حق میں قرارداد کی منظوری کو اپنا کارنامہ قرار دیتی رہی۔
مسٹر عمران خان! مانا کہ کسی وجہ کے تحت آپ یہ حقیقت فراموش کر بیٹھے کہ آپ برطانیہ نہیں بلکہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں جس کی معیشت سالانہ آٹھ فیصد بجٹ خسارے اور 15 ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر چل رہی ہے۔ لیکن آپ یہ بات کیسے بھول گئے کہ جب ہمارا سفیر آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر قرضے کی قسط کے حصول کے لئے امریکہ کی مدد مانگنے سٹیٹ آفس جائے گا تو کرارا جواب ملے گا۔ کیونکہ امریکیوں کا یہی انداز ہے، وہ خاموشی موقع کا انتظار کرتے ہیں اور موقع ملتے ہی بھرپور جواب دیتے ہیں۔
لہٰذا امریکی سٹیٹ آفس کا ہمارے سفیر کو یہ کہنا کہ قرضہ بھی روس سے لو، ہرگز اچنبھے کی بات نہیں۔ جبکہ ہمارے سفیر کی طرف سے اپنی سفارتکارانہ صلاحیتوں کا ماہرانہ استعمال کرتے ہوئے ماضی کی دوستی اور دوطرفہ تعاون کی یاد دلانے پر امریکی حکام کا، وزیراعظم عمران خان کے خلاف متوقع عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کی صورت میں سوچیں گے کہنا بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں، کیونکہ امریکی حکام سمجھتے ہیں کہ روس کا دورہ کرنا دراصل عمران خان کا اپنا فیصلہ تھا۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائیٹرز‘ کے مطابق امریکہ بہادر نے اس سے ملتی جلتی دھمکی بھارت کو بھی دی ہے، کہ اگر پابندیوں کے باوجود روس سے تیل کی خریداری جاری رکھی تو اچھا نہیں ہو گا۔ چاہے تو نریندر مودی بھی اس کو اپنے خلاف سازش قرار دے سکتا ہے۔
یہاں یہ سوال بنیادی نوعیت کا ہے، کیا 7 مارچ سے قبل اپوزیشن کی متوقع تحریک عدم اعتماد کا حوالہ دینا کوئی خفیہ راز تھا؟ جس کو مسٹر عمران خان نے قوم سے بطور وزیراعظم اپنے آخری خطاب میں بہت بڑا ایشو بنا کر پیش کیا ہے، مسٹر عمران خان کو معلوم ہونا چاہیے کہ 21 فروری 2022 کو مولانا فضل الرحمٰن نے پی ڈی ایم اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں لانے کا باقاعدہ اعلان کیا تھا، کیا اسلام آباد میں قائم امریکی سفارتخانے نے اپنے سٹیٹ آفس کو اس کی اطلاع نہیں بھیجی ہوگی کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد آنے والی ہے لہٰذا پاکستان کے حوالے سے امریکی پالیسی عدم اعتماد کی تحریک کے تناظر میں وضع کی جائے۔
وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی بحث تو 20 ستمبر 2020 سے شروع ہو گئی تھی جس روز اپوزیشن کی گیارہ پارٹیوں نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا قیام عمل میں لایا تھا۔ بلکہ تحریک عدم اعتماد کا آئیڈیا پاکستان پیپلز پارٹی کا تھا جبکہ مسٹر عمران خان کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میاں نواز شریف کی سازش ہے، خٰال رہے کہ نون لیگ کا ایجنڈا تو پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دینا تھا۔
لہٰذا مسٹر عمران خان! امریکی صدارتی انتخاب کے دوران پاکستانی سفارتخانے کے ذریعے ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم چلوانے کا فیصلہ بھی آپ کا تھا، یوکرائن پر حملے کے وقت روس کا دورہ کرنے کا فیصلہ بھی آپ کا ہی تھا، ایک سفارتی خط ملنے پر یورپی یونین کو للکارنے کا فیصلہ بھی آپ کا تھا۔ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر عالمی طاقتوں کو پتھر آپ مارتے رہیں اور پاکستان کو اس کے نتائج نہ بھگتنا پڑیں، یہ کیونکر ممکن ہے!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر