محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وکٹورین انگریز کرکٹ کو اپنی زندگی کا بہت اہم حصہ سمجھتے اور اس کھیل کو تمام اصول وضوابط کے مطابق کھیلنے کے قائل رہے۔ اگرچہ باڈی لائن کرکٹ کا سیاہ داغ بھی انگریزوں یعنی برطانویوں کی ایجاد ہے، جس میں آسٹریلین ڈان بریڈمین کو رنز بنانے سے روکنے کے لئے ان پر بانسروں کی بوچھاڑ کی گئی ۔ویسے اس طرح کی منفی جارحانہ کرکٹ پر خود انگلینڈ میں بہت تنقید ہوئی ۔ انگریزوں نے یہ محاورہ تخلیق کیا کہ کوئی کام سپورٹس مین سپرٹ کے مطابق نہ ہو رہا ہو تو کہا جائے، دِس از ناٹ کرکٹ (This Is Not Cricket)۔بعد میں یہ بات صرف کھیل ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے دیگر شعبوںمیں بھی محاورتاً کہی جانے لگی۔
آج کل پاکستانی سیاست کو دیکھا جائے تو یہی بات ذہن میں آتی ہے، دِس از ناٹ کرکٹ۔ ہر قسم کا گند ہماری سیاست میں گھل چکا ہے، اتنا شورشرابا، قواعد وضوابط کے خلاف بے پناہ حرکتیں۔ستم ظریفی یہ کہ سب کچھ اپوزیشن جماعتوں نے کیا جو پچھلے ساڑھے تین برسوں سے مسلسل آئین، جمہوریت، سیاسی اخلاقیات ، سول سپرمیسی وغیرہ کی رٹ لگائے ہوئے تھے۔ جن کا دعویٰ تھا کہ آئین ، قانون، جمہوریت اور سیاسی اخلاقیات کی پابندی ان پر ختم ہے۔آج سب دیکھ رہے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے دعوﺅں میں کس قدر سچی تھیں۔ جناب زرداری،جناب شہباز شریف اور لاکھوں علما کے فاضل استاد ہونے کے دعوے دار جناب مولانا فضل الرحمن کی مہربانی سے پچھلے چند دنوں میں جو کچھ سامنے آیا، وہ افسوس ناک ہے۔
ہمارے بعض دوستوں کو جنابِ زرداری سے کبھی حسن ظن نہیں رہا، ان کا کہنا ہے کہ جو لیڈر اعلانیہ کہے کہ تحریری معاہدے قرآن وحدیث تو نہیں کہ ان کی خلاف ورزی نہ کی جائے ، اس کی بات پر کیسے اعتبار کیا جا سکتا ہے اور اس کا جمہوریت اور اصول پسندی سے کیا تعلق؟ تاہم ہمارے یہ دوست میاں نواز شریف کی جمہوریت دوستی اور اصول پسندی کے بیانیہ سے متاثر تھے، ان کا خیال تھا کہ آج کے دور میں صرف مسلم لیگ ن کی قیادت ہی ہے جس کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف ہے اور جو ملک میں جمہوری ، آئینی روایات مستحکم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اسی طرح ان احباب کا مولانا فضل الرحمن کے بارے میں نرم گوشہ تھا کہ یہ عالم دین ہیں اورماضی میں بعض جگہوں پر کمزوری دکھانے کے باوجود کھلم کھلا لوٹ مار اور ہارس ٹریڈنگ کی حمایت نہیں کریں گے۔
اپنے دوستوں کے حسن ظن پر میں ہمیشہ مسکراتا تھا۔ مجھے اچھی طرح علم ہے کہ پاکستان میں سیاست اور سیاسی جماعتیں دراصل اقتدار اور مفادات حاصل کرنے کی خواہاں ہیں ۔ جمہوریت کا یہ صرف نام لیتی ہیں ورنہ ان کا جمہوریت اور جمہوری روایات سے کوئی تعلق نہیں۔ پاکستان میں چونکہ پارلیمانی جمہوری نظام ہے اور اقتدار حاصل کرنے کے لئے الیکشن لڑنا، سیاسی جماعتیں وغیرہ بنانا پڑتی ہیں، اس لئے سیاستدان ایسا مجبوراً کر لیتے ہیں۔ ورنہ انہیں سیاسی جماعتوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، اس لئے ایک آدھ جماعت کے سوا کبھی کسی نے پارٹی میں جینوئن الیکشن کرائے ہی نہیں۔
پاکستان کی بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن، تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، جے یوآئی ف، اے این پی، ق لیگ ، پختون خوا ملی عوامی پارٹی(میپ) وغیرہ وغیرہ ،یہ دراصل چند گھرانوں کی جاگیر ہیں۔ مسلم لیگ ن میں کوئی کارکن یا رہنما جتنی قربانیاں دے، چاہے جو مرضی کر دکھائے، مرکزی قیادت صرف شریف خاندان کے مقدر میں ہے۔ پیپلزپارٹی میں زرداری خاندان جبکہ جے یوآئی میں مولانا فضل الرحمن کا خاندان (ان کے بھائی اور اب بیٹا)، ق لیگ میں چودھری، اے این پی میں ولی خان کا خاندان، میپ میں محمود اچکزئی کی فیملی چھائی ہے۔ تحریک انصاف میں عمران خان اکیلا ہی چھایا ہے۔ کسی کی جرات نہیں کہ وہ قیادت کا دعوے دار بن سکے۔
جماعت اسلامی البتہ ایک استثنا ہے ، جس کے سابق امیروں (سید مودودی، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن )کی اولاد جماعت کی مرکزی قیادت میں شامل نہیں، وہاں الیکشن بھی شفاف طریقے سے ہوتے ہیں۔ ایم کیو ایم میں بھی ایسا نہیں ، اس کی وجہ یہ کہ وہ تین عشرے الطاف حسین کے نرغے میں رہی اور اسے آزاد ہوئے صرف چند برس ہوئے، ابھی تک کسی ایک لیڈر کی گرفت اس پر مضبوط نہیں ہوپائی۔ان کے علاوہ تمام جماعتیں چند خاندانوں اور ان کی اولادوں کی ملکیت ہیں۔ کارکنوں کی حیثیت بھیڑ بکریوں کی سی اور صف اول ، دوم کے دیگررہنما صرف قربانیاں دینے اور اقتدارملنے پر کیک کابچاکھچا ٹکڑا کھانے تک محدود ہیں۔
ان سیاستدانوں کو جمہوریت اور سیاسی سسٹم سے بھی کوئی خاص دلچسپی نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جب ڈکٹیٹر آتا ہے تو ان کا ایک حصہ بھاگ کر اس کے ساتھ چپک جاتا اور مزے لوٹتا رہتا ہے۔ جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کا فائدہ میاں نواز شریف اور بیشتر مسلم لیگیوں کو ہوا۔ مشرف کا مارشل لا میاں نواز شریف حکومت کے خلاف آیا ، پیپلزپارٹی نے اس کا بھرپور خیر مقدم کیا۔ جب مشرف نے دونوں کو جھنڈی کرائی، پھر یہ مخالف ہوئے، ورنہ اگر ڈکٹیٹر چاہتا تو ان میں سے ایک پارٹی ضرور اس کا حصہ بن جاتی۔ ان دونوں پارٹیوں کا سب سے بڑا کریڈٹ چارٹر آف ڈیموکریسی ہے، اس کا بھی یہ حال کہ ابھی معاہدے پر سیاسی خشک نہیں ہوئی تھی اور ڈکٹیٹر سے خفیہ مذاکرات بھی شروع ہوگئے۔
مجھے اس پر خوشی ہوئی ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے پرجوش حامیوں کے سوا بیشتر عوامی حلقے اور معتدل عناصر اس ہارس ٹریڈنگ کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ گلی محلہ کی سطح پراسے بے شرمی اور ڈھٹائی سمجھاجارہا ہے کہ یوں منہ پھاڑ کر بدعہدی اور سیاسی غداری کی جائے۔ سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے کارکن بڑے جارحانہ موڈ میں ہیں، مگر جو لوگ ان کی طرف نہیں ، وہ بھی اس ہارس ٹریڈنگ کی مذمت کر رہے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ سیاسی، جمہوری اور صحافتی حلقوں کوایک حوالے سے یکسو ہوجانا چاہیے۔ انہیں منحرف ارکان بھی نہیں کہنا چاہیے، یہ تو بڑانرم سا لفظ ہے۔یہ ہارس ٹریڈنگ ہی ہے۔ یہ لوگ جس پارٹی میں شامل ہوئے، اس کے ڈسپلن کو توڑ رہے ہیں اور واضح طور پر کسی نہ کسی ترغیب اور کشش کے تحت ایسا ہو رہا ۔ ایک آدھ شخص ایسا ضرورہے جو پچھلے سال ڈیڑھ سے اعلانیہ مخالف تھا ، اس کے علاوہ تو اکثر ارکان اسمبلی منافقت آمیز مصلحت کی چادر اوڑھے دبکے بیٹھے رہے۔ اب جب اشارہ ملا، بھاگ کر اپوزیشن کے ساتھ جا ملے۔ انہیں یہ کرنا چاہیے تھا کہ اپنی اسمبلی کی رکنیت سے استعفا دیں اور اپوزیشن کے تعاون سے پھر الیکشن لڑ کر جیتیں، پھر جو مرضی کریں۔ ان کے استعفوں سے ویسے بھی وزیراعظم کی اکثریت ختم ہوجاتی ہے۔
ایک دلیل اپوزیشن کے حامی دے رہے ہیں کہ جب یہ لوگ پی ٹی آئی میں شامل ہو رہے تھے تو تب ان کا خیر مقدم کیا گیا اور اب جانے پر تنقید کیوں ؟ یہ اعتراض ہی غلط ہے۔ الیکشن کے موقعہ پر ان لوگوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی۔ یہ ان کا قانونی حق تھا کیونکہ پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے باوجود وہ الیکشن ہار سکتے تھے جیسا کہ پنجاب میں بہت سی سیٹوں پر ہوا۔ اگلے الیکشن سے پہلے یہ لوگ پی ٹی آئی چھوڑ کر ن لیگ چلے جاتے تو کوئی ان پر اعتراض نہ کرتا۔ تب قانونی لحاظ سے یہ جرم نہ ہوتا، البتہ اخلاقی طور پر تھوڑی بہت ملامت ہوسکتی ہے کہ ہر بار بغیر کسی وجہ کے پارٹی بدلنا مناسب حرکت نہیں۔تاہم اس وقت اپنی پارٹی کا ڈسپلن توڑ کر اپوزیشن کا ساتھ دینا فلورکراسنگ ہے جو آئین اور قانون کی نظر میں جرم اور زیادتی ہے۔ اس لئے ہمیں کلیئر ہونا چاہیے۔
بعض لوگ سوال کر رہے ہیں کہ جب اپوزیشن اتحاد حکومتی اتحادیوں کے ساتھ جوڑ توڑ کر کے حکومتی اکثریت ختم کر سکتا تھا تو پھر تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کیوں توڑے گئے ،یہ بدنامی کیوں مول لی گئی ؟اس کا جواب بھی مشکل نہیں۔ مسئلہ پنجاب میں چودھریوں کا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی چودھریوں کو پنجاب دینے کے لئے تیار نہیں۔ میاں صاحب کو خدشہ ہے کہ اس تجربہ کار سیاسی خانوادے کو چند ماہ بھی مل گئے تو پنجاب میں ڈیڈھ دو درجن نشستوں سے ہاتھ دھونے پڑ جائیں گے ، یوں ان کی سپیس کچھ نہ کچھ کم ہی ہوگی۔ ق لیگ سے اپوزیشن کے مذاکرات اسی وجہ سے نتیجہ خیز نہیں ہو پا رہے۔ ورنہ اگر وزارت اعلیٰ کی ٹھوس پیش کش کی جاتی تو اب تک حکومتی اکثریت پنجاب اور مرکز میں ختم ہوچکی ہوتی۔ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)کا مسئلہ بھی ملتا جلتا ہے، ان کاکوئی مسلمہ لیڈر نہیں اور لگتا ہے کہ ہرکوئی اپنے لئے زیادہ شیئر چاہ رہا ہے۔ البتہ سندھ میں پیپلزپارٹی نے ایم کیوایم سے مذاکرات کرنے کا مشکل فیصلہ کیا اور انہیں وہ کچھ دینے کا اشارہ دیاجا رہا ہے جس کا شائد ایم کیو ایم نے خواب میں بھی نہ سوچا ہو۔
ایک اہم ٹوئسٹ صورتحال میں سپریم کورٹ کی وجہ سے آیا ہے۔ صدارتی ریفرنس کی سماعت ہونے سے لگ یوں رہا ہے کہ اپوزیشن کو پی ٹی آئی کے باغی گروپ کی جگہ حکومتی اتحادیوں سے پھر مذاکرات کرنے پڑیں گے۔ ایسی غیر یقینی اور ڈرامائی صورتحال صحافیوں اور صحافت کے لئے سازگار ہے، مگرسیاست کے ایک طالب علم کے طور پرمجھے افسوس ہے کہ اس پورے کھیل میں سیاسی روایات اور اخلاقیات کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں۔جو بھی ہارے جیتے، اصل شکست جمہوریت کی ہوئی۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر