نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خواتین کے حقوق||ظہور دھریجہ

ان ملکوں میں رنگ اور نسل کی بنیاد پر انسانیت سوز مظالم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ انسانی حقوق کے حوالے سے یہ بات بھی تسلیم کرنا ہو گی کہ بر صغیر جنوبی ایشیامیں معاشرے کو طبقات میں تقسیم کرنے والا بھی انگریز سامراج ہی تھا جس نے اپنے ایجنٹوں اور اپنے تنخواہ دار ملازمین کو مراعات اور عہدے دیئے وہ معزز کہلائے اور غرباء کو ان کی باج گزار کمی کمین بنا دیا گیا۔

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ  سے پیوستہ روز خواتین کا عالمی دن منایا گیا ۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا خواتین کو تحفظ فراہم کرنا معاشرے کی اہم ذمہ داری ہے۔عالمی یوم نسواں کے حوالے سے پوری دنیا کی طرح ملک بھر میں تقریبات اور ریلیوں کا اہتمام کیا گیا ۔ ایک طرف یوم خواتین منایا جا رہا تھا ، دوسری طرف میانوالی کے ایک جنونی نے اپنی7دن کی بیٹی کو پانچ گولیاں فائر کرکے قتل کر دیا کہ مجھے بیٹی نہیں بیٹا چاہیئے ۔یہی ایک واقعہ صنفی امتیاز کے حوالے سے کافی ہے اب کوئی جو بات بھی کرے وہ بیکار اور بے وزن ہے ۔ ایک طرف تو یہ بھی ہوتا ہے کہ الیکشن کے دنوں میں ووٹ حاصل کرنے کیلئے خواتین کو خود پولنگ اسٹیشن پر لے جایا جاتا مگر جب وہ اپنے حق کے حصول کیلئے آواز بلند کرتی ہیں تو مخالفت بھی کی جاتی ہے ۔
اس طرح کے دہرے معیار ختم ہونے چاہئیں۔ ہر جگہ عورت ظلم کا شکار ہوتی ہے ، کہنے کو صنفی امتیاز کے بغیر ہر انسان کو برابر کے حقوق حاصل ہیں مگر عملی طور پر عورت کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے ۔ اسلام میں عورت کوپیغمبر نہیں بنایا گیامگر وہ پیغمبروں کی ماں ضرور ہے ۔ جنات کے حوالے سے جعلی اور ڈبہ پیروں کے قصے کہانیاں زبان زدِ خاص و عام ہیں ۔ جعلی پیروں نے بہت دوکانداری کر لی ہے ، ذاتی اغراض و ہوس زر کے لئے اس نے انسانیت پر بہت ظلم کئے ۔
کورونا وائرس نے بہت سے جعل سازوں کے نقاب اتار دیئے ، یہ تو کہتے تھے کہ کائنات کی ہر مرض کا ہم علاج کرتے ہیں ، اب یہ کورونا کے خوف سے گھروں میں چھپ کر کیوں بیٹھ گئے تھے ۔ اس طرح کے واقعات جہالت کی بناء پر ہوتے ہیں ، حظور نبی کریمﷺؐ کی آمد سے پہلے عرب میں بیٹی کو زندہ درگو کیا جاتا تھا ، یہ بھی جہالت کی بناء پر تھا۔جہالت اب بھی باقی ہے جسے ختم کرنے کیلئے تعلیم کو عام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ماں کی گود ابتدائی درسگاہ ہے لیکن اس معاشرے میں اس درسگا ہ کو معاشی ،سماجی اور اقتصادی دبائو میں ناصرف کمزور کیا جارہے بلکہ عورت کی عزت و احترام اور وقار بھی اس معاشرے میں دن بدن ختم ہورہی ہے او ر خواتین اپنی گود میں بچوں کو قوم کی مضبوطی کادرس نہیں دیتی ہیں بلکہ ان کو معاشی دبائو کو کم کرنے کا ذریعہ سمجھتی ہیں اور ترقی خوشحالی کیلئے دولت کمانے کو اہمیت دیتی ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگ دولت کی ہوس میں مبتلا ہیں اور دولت کمانے کے جائز وناجائز طریقوں کو جائز سمجھتے ہیں ۔ کرپشن بدعنوانی کو عیب نہیں جانا جاتاہے بلکہ معاشی تنگی کو دور کرنے کا ذریعہ جانا جاتاہے یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں عورت کی عزت نفس محفوظ نہیں ہے اور نہ انکے حقوق محفوظ ہیں ۔ لوگ آگا ہی کے باوجود عورت کی عزت احترام نہیں کرتے ہیں اور دین اسلا م کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہیں اور عورت کو پنچائتوں، عدالتوں اور جرگوں میں ناجائز گھسیٹتے ہیں اور انکے ساتھ انتہائی بے رحما نہ سلوک کرتے ہیں۔ جھوٹ دھوکا دہی اور بہتان بازیوں سے اسکے مقام کو معاشرے میںگراتے ہیں اور حوا کی بیٹی کواس طرح رسوا کیا جاتاہے کہ معاشرے میں اس کو پنا ہ نہیں ملتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ آزادی مارچ میں سیاسی مطالبات کو فوکس کیا گیا اور مذہبی مطالبات سامنے نہیں آئے ۔ جس سے انتہا پسندی کا تاثر زائل ہوا ۔
اس کے ساتھ ضروری ہے کہ غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی سیاسی عمل میں شریک کیا جائے اور ان کو عملی طور پر احساس دلایا جائے کہ پاکستان ہم سب کا ہے ۔ اس سے ’’ تو بھی پاکستان ہے میں بھی پاکستان ہوں ‘‘ ، ’’ یہ تیرا پاکستان ہے ، یہ میرا پاکستان ہے ‘‘ کا نعرہ درست ثابت ہونے کے ساتھ ایک خوبصورت ماحول سامنے آئے گا کرتا ۔ ہر انسان کا احترام ہونا چاہیے ۔ ۔ سندھ میں ہم نے دیکھا کہ ایک قومی سیاسی و مذہبی جماعت کے رہنما مولانا راشد سومرو ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر نمرتا کی تعزیت کیلئے گئے تھے اور وہاں ایک مندر جسے مسمار کیا گیا تھا ، میں پہنچ کر ان سے یکجہتی کا اظہار کیا ۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ لوگوں میں اپنے بنیادی انسانی حقوق کا شعور بڑھ رہا ہے ۔لوگ تعلیم کی طرف راغب ہیں اور اپنی دھرتی ، اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے جڑت مضبوط ہو رہی ہے ۔ لوگ ا پنی شاعری ، موسیقی اور ثقافت سے والہانہ محبت کرتے ہیں جوکہ انتہا پسندی پر کاری ضرب ہے ۔
 یوں تو پوری دنیا میں میل شاونزم نے معاشرے کو اول اور دوم درجے میں بانٹ رکھا ہے ، لیکن ترقی پذیر ممالک میں صنف نازک کی صورتحال بد تر ہے ۔خواتین پر تشدد، غیرت کے نام پر عورتوں کا قتل ، ونی اور کالا کالی جیسی رسومات نے عورت دوسرے اور تیسرے درجے سے بھی آگے پھینک دیا ہے ۔ صنفی اور امتیازی سلوک عورتوں کے ساتھ ساتھ بچوں سے بھی روا رکھا جاتا ہے اور بوڑھوں کی بھی قدر افزائی نہیں ہوتی ۔ بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے صنف کی بنیاد پر ہر طرح کا امتیازی رسموات کے خاتمے کیلئے قوانین کی ضرورت ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے جہاں ترقی پذیر ممالک کی صورت حال درست نہیں۔ وہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی انسانی حقوٓق کی صورتحال ان سے بھی زیادہ خراب ہے ۔
ان ملکوں میں رنگ اور نسل کی بنیاد پر انسانیت سوز مظالم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ انسانی حقوق کے حوالے سے یہ بات بھی تسلیم کرنا ہو گی کہ بر صغیر جنوبی ایشیامیں معاشرے کو طبقات میں تقسیم کرنے والا بھی انگریز سامراج ہی تھا جس نے اپنے ایجنٹوں اور اپنے تنخواہ دار ملازمین کو مراعات اور عہدے دیئے وہ معزز کہلائے اور غرباء کو ان کی باج گزار کمی کمین بنا دیا گیا۔ پوری دنیا میں انسانی حقوق کی صورتحال اس وقت تک درست نہ ہو سکے گی جب تک ترقی یافتہ ممالک اپنی روش تبدیل کر کے ترقی پذیر ممالک اور وہاں بسنے والے لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق فراہم نہ کریں گے ۔ یورپ نے ترقی پذیر ممالک کو لوٹنے ، ان کو قرضوں میں جکڑنے ،کرپٹ حکمرانوں کو ککس بیک کی شکل میں تحریص اور لالچ دیکر سود در سود قرضوں کی شکل میں غریب عوام کا کچومر نکالنے اور بدنام زمانہ معاشی ہتھکنڈوں کا جو جال بچھایا ہوا ہے یہ بھی در اصل بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ یورپ اور ترقی پذیر ممالک پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انسانیت کو مساویانہ انسانی حقوق اور انصاف فراہم کر کے انسانیت کو تباہ ہونے سے بچائیں ۔

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author