ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرض کرو کہ تمہاری عمر اٹھارہ برس ہے۔ ارے بھئی اگر نہیں بھی ہے تو فرض کر لو نا، تھوڑی دیر کے لئے کیا بگڑے گا تمہارا۔
چلو فرض کر لیا کہ تم ابھی اٹھارہ برس کی ہوئی ہو اور دنیا فتح کرنے کے منصوبے بنائے بیٹھی ہو۔ گھر گاڑی، ہیرے جواہرات، شہرت، نام، سب کچھ ہے تمہاری وش لسٹ پہ ہے۔ اگر ہم سے پوچھو گی کہ کیسے حاصل کرنا ہے تو ہمارا جواب تو ایک ہی ہو گا بھئی پڑھو لکھو، محنت کرو، ایک دن سب کچھ مل جائے گا۔
اوں ہوں۔ نہیں وقت بہت لگتا ہے اس میں، برسہا برس کی محنت اور مشکلات علیحدہ، نہ بابا نہ۔ تم نفی میں سر ہلا دیتی ہو۔
”ہاں بھئی لیکن تم نے سن نہیں رکھا کیا، slow and steady wins the race!“
”سب پرانی باتیں، بابا آدم کے زمانے کی۔“
”ارے ہم تمہیں باوا آدم کے وقت سے نظر آتے ہیں کیا؟ ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ ہم نے نوکری شروع کی تھی۔ اور ہاں پہلی تنخواہ بھی سن لو، اٹھائیس سو روپے، ایک سترہویں گریڈ کی ڈاکٹر۔ اب ہنسو تو نہیں۔ ٹھیک ہے اتنی محنت کے بعد تنخواہ کچھ کم تھی لیکن یہ بھی تو دیکھو کہ آگے بڑھنے کے مواقع اسی طرح تو شروع ہوتے ہیں۔ پہلی سیڑھی پہ قدم تو رکھنا ہی پڑتا ہے نا۔
تمہیں ابھی سے گاڑی چاہیے؟ کیوں بھئی، ابھی سے کیوں؟ ذرا چھری تلے دم تو لو، اتنی جلدی کاہے کی؟ محنت کا پتھر اٹھا کر چلو
ہم اٹھارہویں برس پہ میڈیکل کالج میں گھسے تھے۔ اگلے چھ برسوں میں پورے لاہور میں گھومتے پھرے۔ باہر چلنے والی ساری ویگنیں اپنی تھیں اور ہاں کبھی پیسے زیادہ ہوتے تو رکشے بھی۔ انار کلی جانے کا کرایہ سات روپے ہوتا، جو تین لڑکیوں میں تقسیم کرنے کے بعد تقریباً ڈھائی روپے حصے میں آتا۔
ایک سہیلی امریکہ سے پڑھنے آئی تھی اور اس کے ابا نے ایف ایکس خرید دی تھی اسے۔ جب کبھی موڈ میں ہوتی، لفٹ دے دیتی۔ قسم لے لو جو کبھی دل للچایا ہو کہ ہمیں بھی ایسی گاڑی ابھی چاہیے ”
”کیا کہا۔ ہم عجیب لڑکیاں تھیں؟ جو مزا اٹھارہ برس میں ہواؤں میں اڑنے کا ہے وہ بعد میں کہاں؟“
”نہیں، ہمیں کچھ اور ہوائیں مزا دیتی تھیں۔ سفید کوٹ، سٹیتھوسکوپ، ڈاکٹر ہونے کا فخر۔ اور ہاں یہ بھی علم تھا کہ گاڑی بھی ایک دن آ ہی جائے گی اور باقی سب کچھ بھی مل ہی جائے گا“
”تم ہنس رہی ہو۔ پچاس کی عمر میں یہ سب کچھ ملا بھی تو کیا۔ جوانی تو گئی۔“
”سنو یہ سب کچھ اس بہت کچھ کی دین ہے جو کوئی بھی ہم سے نہیں چھین سکتا۔ دنیا کے مختلف ملکوں سے حاصل کی ہوئی پانچ ڈگریاں۔
کیا ہوا جو اٹھارہ میں گاڑی نہیں ملی؟ کیا ہوا اگر خواہشات کی پوٹلی کچھ مدت بعد کھلی۔
”ہوں، کتابی باتیں۔ “
تم کندھے اچکا کر کہتی ہو۔
”اچھا، پھر تم کہو کیا ہیں عملی اور حقیقی باتیں؟“
”آنکھوں پہ موٹے شیشوں کی عینک اور آدھی زندگی کتابوں کا رٹا لگانے سے بہتر ہے میں کوئی ان جیسا ڈھونڈھ لوں۔“ تم کندھے اچکا کر کہتی ہو۔
”کن جیسا؟“
”وہی جن کے پاس دولت ہو، شہرت ہو، نام ہو، ان سے شادی کرو، لاڈ اٹھواؤ اور چلیے مل گیا اٹھارہ برس کی عمر میں ہی سب کچھ۔ کیا ہوا اگر وہ شخص ادھیڑ عمر ہو، کیا فرق پڑتا ہے اگر یہ اس کی تیسری یا چوتھی شادی ہو“ تم بے نیازی سے کہتی ہو۔
”اللہ اللہ، اٹھارہ برس میں اتنی دانش“ ہم نے منہ میں انگلی داب لی ہے۔ اللہ ہم کیوں اتنے بے وقوف تھے؟ کتابوں میں ہی سر دبا کر بیٹھے رہے۔
”اچھا تو تم شوگر ڈیڈی کی تلاش میں ہو؟“
”ہاہاہا، شوگر ڈیڈی۔ صحیح کہا آپ نے۔ دیکھی نہیں آپ نے حال ہی میں ہونے والی شادی؟ ساٹھا پاٹھا شوہر اور اٹھارہ برس کی اٹکھیلیاں کرتی ہوئی لڑکی۔
وہ انٹرویو ضرور دیکھیے گا جب وہ کہتی ہے کہ جب یہ مجھے بچہ سمجھ کر بچوں کی طرح پیار کرتے ہیں تو بہت مزا آتا ہے۔ منہ دکھائی میں گاڑی بھی ملی ہے بھئی۔ اور شادی تو ٹاک آف دی ٹاؤن ہے ہی، ہر چینل پہ تصویریں اور انٹرویوز، گردش کرتی ہوئی وڈیوز اور ٹویٹر کا ٹرینڈ، اور کیا چاہیے تھا بھلا؟ کسی چھو کرے سے شادی کرتی تو یہ سب کچھ حاصل ہوتا کیا؟
ویسے شوگر ڈیڈی۔ نام خوب ہے ”
وہ ہنس کر کہتی ہے،
”ارے بابا شوگر ڈیڈی کی اصطلاح ہم نے نہیں گھڑی، یہ موجود ہے پہلے سے“
ہم صفائی پیش کرتے ہیں،
”بس ٹھیک ہے، تو شوگر ڈیڈی ہی چاہیے جو سب کچھ دلوا دے مجھے، اور بدلے میں دل ٹھنڈا کرے“ وہ قہقہے لگاتی ہے۔
جانتے ہیں آپ کیا ہے یہ شوگر ڈیڈی کا فلسفہ یا شوگرنگ؟
آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق sugaring کا لفظ مبہم ہے لیکن اس کے حقیقی معنی کی کڑواہٹ کو کم کرنے کے کیے استعمال کیا گیا ہے۔
شوگرنگ ایسا رشتہ ہے جس میں دولت مند مرد یا عورت عمر کے تفاوت کے باوجود ایسے کم عمر لڑکی یا لڑکے کو زندگی کا ساتھی چنتے ہیں جو مالی وسائل حاصل کرنے کے لئے عمر کے فرق کو اہم نہیں جانتا۔ کم عمر پارٹنر شوگر بے بی کہلاتا ہے اور دولت مند بوڑھا یا بوڑھی شوگر ڈیڈی یا شوگر ممی۔
شوگر ڈیڈی اپنی دولت شوگر بے بی پہ خرچ کرتا نہیں تھکتا اور شوگر بے بی اس کے لئے ایک ٹرافی کا کام دیتی ہے۔ لیکن کبھی کبھار شوگر بے بی اس خریدی ہوئی محبت کا بدلہ بھی لے لیتی ہے۔
نوبل انعام یافتہ فرانسیسی ادیب آندرے ژید کو شوگر ڈیڈی بننے کا خمیازہ یوں بھگتنا پڑا جب ان کی شوگر بے بی نے رنجش میں ان کے مخطوطات جلا کر راکھ کر دیے۔
سو وہ سب صاحبان جو شوگر ڈیڈی بننے کی حسرتیں پالے بیٹھے ہیں، ان کو ہمارا مشورہ ہے اور وہ بھی مفت کا کہ دھیان رکھیے گا شوگر بے بی، کہیں کڑوی بے بی نہ بن جائے۔
پھر تیرا کیا بنے گا شوگر ڈیڈی؟
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر