نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملکی صورتحال کے مختلف پہلو||ظہور دھریجہ

گورنر سندھ عمران اسماعیل نے کہا ہے کہ بلدیاتی امور ایک طاقتور میئر ہی چلا سکتا ہے جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ بلدیاتی حکومتوں کو وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کے اختیار نہیں دئیے جا سکتے۔ سندھ میں مسئلہ بلدیاتی قانون سازی سے بڑھ کر قوم پرستی کا ہے،

وزیر اعظم عمران خان چین کے دورے پر ہیں، عوام کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں، وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ ہم چین سے مدد کرنے کیلئے کہنے جارہے ہیں، اور کہیں گے کہ آپ اپنی صنعتیں بیرون ملک لے جارہے ہیں اپنی انڈسٹری پاکستان میں بھی لائیں ، مگر پاکستان میں سازگار صنعتی ماحول بنانا ضروری ہے اور خصوصاً توانائی کے شعبے پر توجہ دینا ہو گی کہ مہنگی بجلی کے ہوتے ہوئے کوئی صنعتیں لگانے کیلئے تیار نہیں ہوگا۔
وزیر خزانہ نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں اسپیشل اکنامک زون اب تیار ہیں، اگر چین اسپیشل اکنامک زونز میںاپنی انڈسٹری منتقل کرتا ہے تو یہ دونوں کیلئے بہترین ثابت ہوگا،ایک بات یہ بھی ہے کہ صنعتی زون اصولی طور پر وہاں ہونے چاہئیں جہاں خام مال اور افرادی قوت موجود ہو، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ سب کچھ وسیب میں موجود ہے مگر سی پیک سے اسے کوئی صنعتی زون نہیں ملا۔ وزیرخزانہ شوکت ترین کا یہ بھی کہنا ہے کہ قسط کی منظوری کا مطلب ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کی اقتصادی حکمت عملی سے متفق ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف کی ہر شرط ماننے سے پاکستان میں مہنگائی کا طوفان آیا ہے اور آج ہی آئی ایم ایف کا یہ بیان جاری ہوا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی میں اضافہ اورکرنٹ اکائونٹ خسارہ بڑھ رہا ہے۔
مہنگائی کے نتیجہ میں غریب عوام پر بڑھنے والے بوجھ کو کم کرنا ہوگا، غریب طبقات کو ریلیف دینا ہوگااور ایسی پالیسیاں بنانا ہوں گی جس سے غربت کا خاتمہ ممکن ہو اور معیشت کو استحکام ملے۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ ملکی ترقی کی خاطر حکومتی پالیسیوں کے عملدرآمد میں پورا ساتھ دیں گے ۔ آرمی چیف کا یہ بیان درست اور بجا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومتی پالیسیوں سے عوام کو کوئی ریلیف ملا ہے، حکومت نے کوئی وعدہ پورا کیا ہے ؟ جیسا کہ اہم مسئلہ 100دن میں صوبہ بنانے کا تھا مگر 1200سے زائد دن گزرنے کے باوجود ابھی صرف صوبہ کمیشن تک نہیں بن سکا،وزیر اعظم عمران خان گزشتہ روز بہاولپور آئے ، توقع کی جا رہی تھی کہ وہ صوبے سے متعلق لائحہ عمل کا اعلان کریں گے مگر ایسا نہیں ہوا، اس بارے مدد ہونی چاہئے تاکہ پالیسیاں درست ہوں اور ان پر عملدرآمد بھی خلوص نیت سے ہو۔
وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ حکومتی اداروں کا کام عوام کو سہولت فراہم کرنا اور عوامی شکایات کا ترجیحی بنیادوں پر ازالہ کرنا ہے، کاروبار دوست پالیسیوں کی بدولت سرمایہ کاری سے روزگار اور برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ وزیر اعظم شروع دن سے ایسا کہتے آ رہے ہیں مگر برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا ، سابق وزیر خزانہ نے برآمدات میں اضافہ کے نام پر کرنسی کو خوفناک حد تک ڈی ویلیو کر کے ملکی معیشت کو کھربوں کا نقصان تو دے دیا مگر برآمدات میں اضافہ ہوا اور نہ ہی روزگار کے مواقع پیدا ہوئے۔سچی بات تو یہ ہے کہ صرف یہ نہیں کہ روزگار کے نئے مواقع پیدا نہ ہوئے بلکہ لاکھوں کی تعداد میں برسرروزگار لوگ بھی بیروزگاری کا شکار ہوئے ۔عالمی حوالے سے بھی بات ہو جائے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ابو ظہبی کے ولی عہد سے ٹیلیفونک رابطہ میں حوثیوں کے میزائل حملوں کی مذمت کی۔
وزیر اعظم نے تو پاکستانیوں کے دل کی ترجمانی کی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان اور کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کیخلاف کوئی ملک بھارت کیخلاف مذمتی بیان بھی جاری نہیں کرتا۔ مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے نواز شریف کی واپسی کے متعلق حکومتی خط کا جواب دیدیا ، اٹارنی جنرل کو لکھے گئے خط میں شہباز شریف نے کہا کہ شریف فیملی کا میڈیا ٹرائل مقدمہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نواز شریف بیماری کا بہانہ بنا کر گئے مگر وہ بیمار نہیں ہیں ، ابھی گزشتہ روز ان کو میڈیا نے لندن میں سیر سپاٹے کرتے ہوئے دکھایا۔ وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ نہ صدارتی نظام آ رہا ہے نہ عدم اعتماد، ڈیل یا ڈھیل کا بھی کوئی امکان نہیں، شیخ رشید نے یہ بھی کہاکہ مارچ والے اپنا شوق پورا کر لیں، 23مارچ کو فلائی پاسٹ ہوگا۔ وزیر داخلہ جو بھی کہتے رہیں دال میں کچھ کالا ضرور ہے، کچھ مشیر صاحبان کی طرف سے صدارتی نظام کے حق میں لیکچر دئیے جاتے رہے ہیںاور ڈیل اور ڈھیل کی باتیں بھی درست نہیں کہ یہ سب کچھ ہوتا آ رہا ہے اور سب کچھ کرنے کے بعد یہ کہہ دیاجاتا ہے کہ وہ سیاستدان ہی نہیں جو یوٹرن نہ لے۔
ادھرگورنر سندھ عمران اسماعیل نے کہا ہے کہ بلدیاتی امور ایک طاقتور میئر ہی چلا سکتا ہے جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ بلدیاتی حکومتوں کو وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کے اختیار نہیں دئیے جا سکتے۔ سندھ میں مسئلہ بلدیاتی قانون سازی سے بڑھ کر قوم پرستی کا ہے، پرویز مشرف دور میں ایم کیو ایم کو کراچی میں لا محدود اختیارات حاصل ہوئے تو کراچی کے وسائل کو مال غنیمت جان کر ہڑپ کرلیا گیا ،اب پیپلز پارٹی والے کچھ دینے کو تیار نہیں ، مسئلہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ، گزشتہ دنوں سابق میئر وسیم اختر نے جوش خطابت میں سندھیوں کو چیلنج دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ کراچی والوں کو حق دیں ۔انہوں نے اور بھی کچھ کہا جس پر پورے سندھ میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے ۔، کسی بھی قوم کی تہذیبی شناخت نہایت اہم اور حساس معاملہ ہوتا ہے ، سوچ سمجھ کر بات کی جانی چاہئے۔ ٭٭٭٭٭

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author