ہمارے ایک ساتھی کا نام ممتاز احمد ہے ، سب لوگ اسے بابا منشی کہتے ہیں ، بابا منشی کی وجہ تسمیہ سیاسی حساب کتاب میں مہارت ہے۔ میں نے آج صبح بابا منشی سے پوچھا کہ دھرنے کا کیا بنا؟ انہوں نے کہا کہ دھرنا اپنے اختتام کی طرف رواں دواں ہے ۔ میں نے پوچھا وہ کیسے ؟ انہوں نے کہا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے دھرنے سے انکار کر دیا ہے اور اسفند یار ولی بھی نہیں آئے ۔ اب یہ دھرنا محض ایک مسلک کا دھرنا بن کر رہ گیا ہے۔
دیکھا جائے تو جب 2014 ء میں عمران خان کا دھرنا چل رہا تھا تو مولانا فضل الرحمن ن لیگ کے اتحادی تھے اور کہتے تھے کہ منتخب حکومت کو اپنی مدت پوری کرنی چاہئے اور دھرنوں سے منتخب حکومت کو ہٹانا ٹھیک نہیں ۔ یہ مقافاتِ عمل ہے کہ آج تحریک انصاف بھی اسی بات کو دہرا رہی ہے ۔تحریک انصاف کی ایک بد قسمتی یہ بھی رہی ہے کہ بر سر اقتدار آنے کے باوجود اس کے قائدین کنٹینر سے نہیں اُترے تھے ، ان کا لب و لہجہ مسلسل اپوزیشن والا رہا ، مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کا یہ فائدہ ہوا کہ تحریک انصاف کنٹینر سے اُتر کر سیاسی مذاکرات کی میز پر آئی ۔
ایک لحاظ سے یہ بھی مولانا فضل الرحمن کی کامیابی ہے ۔ مولانا فضل الرحمن کے خلاف عمران خان کے لب و لہجے کا بخار تھا اور وہ بھی بہت حد تک اُتر گیا کہ عمران خان اکیلے گالی دیتے تھے اور آج مولانا فضل الرحمن نے باجماعت سیدھی سیدھی سنوائیں ۔ دھرنے کے حوالے سے جتنے منہ اُتنی باتیں کے مصداق ، کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ دھرنا جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کے درمیان جنگ ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ دھرنا دائیں اور بائیں بازو کے درمیان ہے اور ہمارے ایک سیاسی دوست نے تو یہاں تک کہا کہ کون کہتا ہے کہ عمران خان اور مولانا فضل الرحمن آمنے سامنے ہیں ، در اصل یہ سیاسی جنگ امریکا اور چین کے درمیان ہے ۔
امریکی انٹرسٹ اور چینی انٹرسٹ ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان نے سی پیک کی بساط لپیٹنے کی شرط پر امریکا سے سودا کیا اور چین کی حکومت جس نے اگلے دو سال میں گوادر اور موٹر ویز کے ساتھ ساتھ صنعتی زونز پر ساٹھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنی تھی، امریکا نے رکوا دی ۔ دوست کی اس بات سے مجھے یاد آیا کہ پہلے یہ ہوتا تھا کہ جب بھی پاکستان میں سیاسی محاذ آرائی شروع ہوتی تو کہا جاتا تھا کہ یہ امریکا روس کی لڑائی ہے ، یہ سرمایہ دار اور مزدور کی جنگ ہے ۔
اس وقت دنیا دو بلاکس میں منقسم تھی ، ایک امریکا اور دوسرا روس ۔ اب روس کی حیثیت ثانوی ہو گئی ہے ، امریکا اور چین آمنے سامنے ہیں ۔ میرے دوست نے جو بات کی اس کا تجزیہ تو دور اندیش سیاستدان کریں گے مگر ان کی بات سے یہ بات سامنے آئی کہ دوسری قوت روس نہیں چین ہے ۔ایک بات یہ بھی ہے ، ہمارے ہاں روس کو سوشلسٹ کہہ کر گالی دی جاتی تھی ، جبکہ گالی دینے والے پاک چین دوستی کی بناء پر چین سے ہمدردی رکھتے تھے ۔ جبکہ مذہب کے حوالے سے چین اور روس کے نظریئے میں فرق نہیں ۔
اب جبکہ دھرنا چل رہا ہے تو اس موقع پر کور کمانڈر کانفرنس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا بیان اہمیت کا حامل ہے کہ قومی کاوشوں اور افواج کی قربانیوں سے امن قائم ہوا ۔ فوج ریاست کا ادارہ ہے ‘ فوج آئین اور قانون کے تحت دوسرے قومی اداروں کی حمایت کرتی رہے گی اور مذموم مقاصد کیلئے امن ختم نہیں کرنے دیا جائیگا۔
اس موقع پر چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کی طرف سے مصالحتی کردار میں بھی تیزی آ گئی ہے ۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ جنگ اور جھگڑے کے موقع پر فائدے میں صلح کرانے والا رہتا ہے ۔ دھرنے کے سلسلے میں وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ برداشت کو کمزوری نہ سمجھا جائے ۔ سلیکٹڈ کا الزام احمقانہ ہے، عوام کے ووٹ سے آئے ، کسی کی چھتری لے کر نہیں ۔پارلیمنٹ کو مضبوط بنائیں گے ۔
عمران خان کے دھرنے کے وقت نواز شریف بھی یہی کہتے تھے جو عمران خان آج کہہ رہے ہیں ۔ یہ مکافات عمل ہے ، دونوں کو اس سے عبرت حاصل کرنی چاہئے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو وسیب کے دورے پر آئے ہوئے ہیں ۔ بہاولپور کے بعد انہوں نے اوچ شریف میں ورکرز سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیاست میں مذہب کارڈ نامنظور۔ انہوں نے کہا کہ سلیکٹڈ نے امیروں کو ریلیف اور عوام کو تکلیف پہنچائی ۔
بلاول بھٹو کو سوچنا چاہئے کہ کیا سیاست اور مذہب الگ الگ ہیں؟ مزید یہ کہ یہاں تو حالت یہ ہے کہ مذہبی تو کیا مسلکی جماعتیں ہیں جیسا کہ جمعیت العلمائے اسلام ، جمعیت العلمائے پاکستان ، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ ، تحریک لبیک ، جماعت اسلامی و دیگر چھوٹی چھوٹی جماعتیں اور فرقے ۔ اس سے بڑھ کر ایک ستم یہ بھی ہے کہ ہمارے دو اسلامی ملک واضح طور پر مذہبی فرقوں کو امداد دیتے ہیں، انتہا پسندی اور دہشت گردی کا جوعذاب اہل وطن نے حال ہی میں بھگتا ہے ‘ وہ اسی ’’ امداد ‘‘ کا شاخسانہ تھا ۔
اب جبکہ مولانا فضل الرحمن دھرنا دے رہے ہیں تو بلاول بھٹو یا کوئی دوسرا شخص کس طرح کہہ سکتا ہے کہ مذہبی کارڈ استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ جبکہ مولانا کے پاس اس کارڈ کے علاوہ باقی کیا رکھا ہے؟ دھرنے کی ممکنہ ناکامی یہ بھی ہے کہ یہ دھرنا ایشو لیس ہے ۔ ہاں اگر مولانا یہ کہتے کہ عمران خان نے وعدے پورے نہیں کئے ، ایک وعدہ سو دن میں صوبہ بنانے کا تھا ، پورا کیوں نہیں ہوا؟ مولانا کے پاس دھرنے کا بہت بڑا جواز تھا کہ ڈی آئی خان کے ساتھ ساتھ وسیب کے دیگر اضلاع کے وسیبی لوگوں سے صوبے کے نام پر ووٹ لئے گئے ۔
یہ بھی ہوا کہ ایک ڈھونگ رچایا گیا جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنا ۔ بڑے بڑے جاگیرداروں نے ن لیگ اور دیگر جماعتوں سے استعفے دیئے ۔ بعض نے اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دیا ، لاہور کے بڑے ہوٹلوں میں پریس کانفرنسوں کا اہتمام ہوا ، قائدین نے نیلی اجرکیں پہن لیں ‘ پورے وسیب میں بڑے بڑے اجتماعات ہونے لگے ، پھر صوبہ محاذ تحریک انصاف میں ضم ہوا ، ٹی وی چینلز پر عمران خان سے صوبے کے نام پر تحریری وعدے دکھائے گئے ،پھر الیکشن کی پوری کمپین صوبے کے نام پر چلی اور پورے وسیب سے مینڈیٹ لے لیا، آج بھولے سے نام نہیں لیتے، در اصل یہی ایک ایشو تھا جس پر عمران خان اور اسکی حکومت سے جواب طلبی کی جا سکتی ہے اور دھرنے دیئے جا سکتے ہیں ۔ اب بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ اصل ایشو پر دھرنا دیا جائے اور موجودہ دھرنے کو ختم کر دیا جائے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر