پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری 3نومبر سے خطہ سرائیکستان کے دورے پر ہیں. بہاول پور میں تیز گام سانحہ کے مرضوں کی عیادت، پریس کلب بہاول پور میں میڈیا سے گفتگو اور اُچ شریف میں وہ ورکرز کنونشن کے نام پر کیے جانے والے عوامی اجتماع سے خطاب کر چکے ہیں. اب اگلے چار روز کے پروگرام ضلع مظفر گڑھ اور ملتان میں ہونے جا رہے ہیں. یکم نومبر کو رحیم یار خان میں ہونے والا پروگرام کچھ موسم کی خرابی اور کچھ پارٹی کے اندر موجود دھڑوں کی خلفشار اور باہمی سرد جنگ کی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا تھا.
رحیم یار خان کا آئندہ پروگرام کب اور کہاں ہو گا ابھی اس بارے کچھ نہیں بتایا گیا. یہاں ایک حقیقت عرض کرتا چلوں کہ پروگرام کے ملتوی ہونے پر پارٹی کے کچھ لوگ بڑے خوش اور نہال تھے انہوں نے باقاعدہ ایک دوسرے کو سر چُھٹے کی مبارکبادیں دیں. خیر ایسی نوبت اور حالات کم و بیش تقریبا سیاسی جماعتوں کے اندر موجود ہیں.
خطہ سرائیکستان کے عوام کی اکثریت جو ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ پیپلز پارٹی سے وابستہ ہے یا وہ دوسری جماعتوں کی نسبت پیپلز پارٹی کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں.شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سرائیکی وسیب کو شناخت اور صوبہ پیپلز پارٹی ہی دے سکتی ہے.
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جس طبقے نے پیپلز پارٹی سے جو توقعات اور امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں.وہ پوری بھی ہوں گی یا نہیں. وہ کب اور کیسے پوری ہو سکتی ہیں. کیا پیپلز پارٹی، اس کی قیادت اور مرکزی رہنما خطہ سرائیکستان کو اس کہ شناخت دینے کے حق میں بھی ہیں یا نہیں. اگر ہیں تو انہوں نے اب تک اس کے لیے ایسا کیا کچھ کیا ہے جس کی بنا پر پیپلز پارٹی سے آس اور امید وابستہ کرکے اس کا ساتھ دیا جائے.
جہاں تک علیحدہ صوبے کے قیام کا تعلق ہے اس کی بات تو تقریبا سبھی سیاسی جماعتیں اپنی اپنی سیاسی ضرورت کے تحت اپنے اپنے انداز میں کرتی چلی آ رہی ہیں.مسلم لیگ ن ہو یا ق، جماعت اسلامی ہو جمیعت علما پاکستان، صاحب اقتدار پارٹی تحریک انصاف ہو یا ابن الوقت جنوبی پنجاب صوبے محاذ والے .
سابق دور حکومت میں پنجاب اسمبلی میں دو صوبوں کی قرار دادیں پاس کروانے والے اور ان کے اتحادیوں کی سیاسی سوچ اور کردار کو وقت نے سب کے سامنے کھول کررکھ دیا ہے. سرائیکی وسیب کے ساتھ کون کون اور کس حد تک مخلص ہے. یہ حقیقت اب کوئی راز نہیں رہی. بلاشبہ عوامی مطالبے اور شدید خواہش اور وسیب میں جزوی طور پر مزاحمتی رد عمل سے بچنےکے لیے لوگوں کو سیاسی طور پر اُلو بنانے والوں نےاب تک کس کس رنگ اور ڈھنگ سے اپنے اپنے سیاسی مفاد کے لیے خطہ سرائیکستان میں علیحدہ صوبےکے ایشو اور کارڈ کو استعمال کیا ہے.
سچی بات تو یہ ہے کہ سیاست دان جتنے بڑے شاطر اور مکار ہیں خطے کےعوام اس سے دوگنا سیاسی غلام اور بھولے ہیں. اگر میں یہ کہوں کے میرے سرائیکی وسیب کے عوام آسانی سے اور سستے ترین استعمال ہو جانے والے لوگ ہیں تو بے جا نہ ہو گا. سرائیکی سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کے معیار، سوچ، کردار کی اگر بات کی جائے تو یقینا شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ملے گا.غیر سنجیدگی کی انتہا ہے. بنیادی سیاسی علوم اور ضروریات کے احساس سے اکثریت نا بلد ہے.میرے مشاہدے کے مطابق انتہائی سطحیت کی سوچ غالب ہے. اس ٹاپک پر دل تو چاہتا ہے کھل کر تفصیل سے بات کروں مگر یہ بذات خود بہت بڑا ٹاپک ہے. میں آج کے اصل موضوع سے بہت دور چلا جاؤں گا.
محترم قارئین کرام،، ہم پیپلز پارٹی کے حالیہ دورہ سرائیکستان پر بات کر رہے ہیں. بہاول پور اور اچ شریف میں پارٹی قیادت اور دوسرے رہنماؤں میں سے کسی نے بھی سرائیکی صوبے اور سرائیکی شناخت کی بات تک کرنا گوارا نہیں سمجھی کیوں?.بلاشبہ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے وزارت اعظمی کے آخری ہچکولے کھاتے ایام میں اسمبلی کے اندرسرائیکی صوبے کا کیس بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا. سابق صدر پاکستان پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری نے بھی صوبے کی حمائت اور سرائیکیوں کو شناخت دینے کا نعرہ لگایا تھا.
دوتہائی اکثریت نہ ہونے کی وجہ کو اپنی مجبوری بتا کر پیپلز پارٹی صوبے بنانے کے عمل کو آگے جاری نہ رکھ سکی. زرداری صاحب نے شناخت کو تسلیم کرکے اس مسئلے کا حل یہ پیش کیا کہ ہم سرائیکی بنک بنا دیتے ہیں. مگر افسوس کہ وقت طاقت اور اختیار ہونےکے باوجود وہ یہ کام بھی نہ کر سکے. جس کی وجہ سے آئندہ آنے والے الیکشن میں پیپلز پارٹی کو سرائیکی وسیب میں توقعات سے بھی کم سیٹیں مل سکیں.
ایک وقت چودھری برادران نے بھی جنوبی پنجاب صوبے کے نام کا نعرہ بلند کیا تھا. اس نعرے کی وجہ سے وہ وسیب کی توجہ بھی حاصل کرنے میں جزوی طور پر کامیاب رہے. جنوبی پنجاب کے نعرے اور کارڈ کو سب سے زیادہ اور بڑے پیمانے پر وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار اینڈ کمپنی نے بڑے اہتمام کےساتھ استعمال کیا.مجوزہ حکومتی پارٹی تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی بارگینگ کی. بلکہ کروائی گئی زیادہ حقیقت کے قریب تر ہے.وسیب واسی ان نئے مداریوں کے فریب میں آ گئے. ان کے اس نعرے کو سچ مچ سمجھ کر پیپلز پارٹی کی بجائے ان کا ساتھ دیا.
جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کو کیش کراکے اپنے لیے وزارتیں حاصل کرنے والوں کو اب صوبے کے نام سے گھن آتی ہے. سرائیکی صوبہ سے نہ صرف انہیں تعصب کی بو آتی ہے بلکہ یہ نعرہ ان صاحبان کو زہر لگتا ہے. اور اتنا زیادہ زہر کہ وہ کہتے ہیں کہ جب کبھی علیحدہ صوبے کی تحریک میں لسانیت شامل ہوئی تو میں اس تحریک سے مکمل طور پر پیچھے ہٹ جاؤں گا.
یہ بہت بڑی کہانی ہے. اس کہانی کے کئی فیس اور فیز ہیں. خیر کبھی ضرور اس پر بھی تفصیل سے بات کریں گے فی الوقت ہم پیپلز پارٹی کی بات کر رہے ہیں. ہم ماضی کے تمام نعروں دعوؤں کو سائیڈ پر رکھ کر غیر جانب دارانہ طور پر اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ آیا سرائیکی شناخت اور صوبے کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی موجودہ سوچ کیا ہے. پہلی بات تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی سرائیکی صوبے کی نہیں کوڑی سچی جنوبی پنجاب صوبے کی حامی ہے. اگر وہ سرائیکی وسیب کے عوام کو سرائیکی صوبے دینے کے حوالے سے کلیئر ہوتی تو ان کی تنظیم کا نام پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب نہیں پیپلز پارٹی سرائیکستان یا سرائیکی وسیب ہوتا.
اپر اور وسطی پنجاب میں کنگال ہو جانے کے باوجود پیپلز پارٹی اپنے آپ کو پنجاب کے خوف سے باہر نہیں نکال پا رہی. دوسری بات جو جماعت یا جس جماعت کے مرکزی و صوبائی رہنما سرائیکی وسیب میں ایک کی بجائے دو صوبوں کے حامی ہیں. یعنی صوبہ جنوبی پنجاب اور صوبہ بہاول پور. یوں سمجھیں یہ خالصتا ن لیگی سوچ ہے یعنی تقسیم کرو، لڑاؤ اور حکومت کرو. یہ سوچ سرے سے کسی نئے صوبے کے قیام کے حق میں ہی نہیں ہے.
کوئی مانے یا نہ مانے یہ انتہائی وسیب مخالفانہ سوچ ہے.سیاسی، معاشی،انتظامی، معاشرتی و سماجی طور پر یہ سٹیٹس گو کی سوچ ہے. یہ غاصب، استحصالی اور قابض طبقے کی سوچ ہے. ماضی قریب میں ایوان بالا میں قومی زبانوں کے بل کے وقت پیپلز پارٹی سرائیکی زبان کی مخالفت میں اپنا ووٹ کاسٹ کر چکی ہے. اب کیونکر اور کیسے اس پارٹی اور اس کی قیادت سے سرائیکی شناخت دینے کی امید رکھی جا سکتی ہے.
تحریک انصاف میں بھی سرائیکی کا ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو کہتا تھا کہ تحریک انصاف ضرور ہمیں صوبہ دے گی. نام کا مسئلہ صوبہ بن جانے کے بعد ہم تبدل کرکے حل کر لیں گے. 100دنوں میں علیحدہ صوبہ دینے والوں نے صوبہ تو بہت دور کی بات ہے اب تو لولی پاپ دینا بھی بند کر دیئے ہیں.لگتا ہے کہ ملتان میں سول سیکرٹریٹ کے قیام کی باتیں بھی تخت لاہور کے قلعہ میں بند ہو چکی ہیں. کیونکہ اس پر بھی خاموشی کی نیند غالب آ چکی ہے.
یہ ساری باتیں عرض کرنے کا مطلب و مقصد یہ ہے کہ ابھی تقریبا سیاسی جماعتیں خطہ سرائیکستان کے عوام کے جذبات کے ساتھ اپنے اپنے مقاصد کے حصول کا کھیل کھیل رہی ہیں. عوام کا سخت ردعمل اور مزاحمتی سیاسی کردار ہی سرائیکی وسیب کو اس کی شناخت اور حقوق دلا سکتا ہے کوئی اور نہیں.میرے نزدیک عوام کے پاس دو مناسب راستے ہیں. خالصتا طور پر کسی وسیب کی پارٹی اور قیادت کو آگے لے آئیں اور اپنی جدوجہد کو آگے بڑھائیں. دوسری اس وفاقی پارلیمانی پارٹی کا ساتھ دیں جو الیکشن سے قبل بلکہ فوری اور اب ہی سرائیکی وسیب کو اس کی شناخت عطا کر دے.باقی ساری باتیں دھوکہ، فریب اور خودی فریبی کے سوا کچھ نہیں ہیں.
سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود دو صوبوں کی بات کرکے پیپلز پارٹی اور اپناسیاسی نقصان کر رہے ہیں. پیپلز پارٹی کی قیادت اپنا موقف واضح کرے کہ وہ خطہ سرائیکستان میں دو صوبوں کی حامی ہے یاایک صوبے کی. خطے کے لوگ تو ٹانگ اور ڈیرہ اسماعیل خان کو بھی سرائیکی صوبے کا ماتھا کہتے ہیں.گزشتہ سالوں کی طرح گزشتہ دنوں ڈیرہ اسماعیل خان میں گرینڈ سرائیکستان کانفرنس اس بات اور حقیقت کا ہی ثبوت ہے سرائیکی وسیب کے لوگ اپنی وحدت، وجود، ثقافت زبان اور شناخت کا تحفظ چاہتے ہیں.وہ اپنے تمام جملہ مسائل کا حل صوبہ سرائیکستان کے قیام میں ہی سمجھتے ہیں. یہاں مجھے ایک آزاد نظم یاد آ رہی ہے.
اساں جیون چہندوں
اساکوں جیون ڈیو
اساں پیون چہندوں
اساکوں پیون ڈیو
سرائیکی صوبہ
شربت ھے یا زہر
اساں پیوں چہندوں
اساکوں پیون ڈیو
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر